نوٹ : کمزور دل حضرات اس کو ہرگز ہرگز نہ پڑھیں، اور مضبوط دل افراد بھی رات کو پڑھنے سے گریز کریں ...شکریہ ...منجانب مصنف 

 

یہ ایک سچا واقعہ ہے، عام طور پر کسی آپ بیتی یا قصّے کو محض زیب داستان کے لیے ، مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے یہ فقرہ کہا جاتا ہے ، مگر اس واقیۓ کے مندرجات بلا کم و کاست بیان کر دیے گیے ہیں ... میں بلواسطہ طور پر اس کا چشمدید گواہ ہوں، بات چند مہینے پیشتر کی ہے جب مرے قریبی دوست ، شہاب احمد کو ٹیو شن کی ضرورت پڑھی... میں ان دنوں ایک سرکاری یو نیورسٹی  میں لیکچرر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ، تو جب اس نے مجھ سے نکر کیا، تو مجھے وہ سرخ رنگت بالوں اور گہری کالی آنکھوں والی لڑکی یاد آی، جس نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ٹیو ٹر لگوانے کی بات کی تھی، یو نیورسٹی میں روز ہی تقریباً سینکڑوں ایسے لوگ ملتے ہیں ، جو آپ کی مدد چاہتے ہیں ... مگر وہ لڑکی مرے ذھن کے کسی خانے میں بیٹھ گیئ تھی، جس کی  وجہہ میں خود نہیں جانتا ... بس یہ تھا کے میری چھٹی حس کچھ زیادہ ہی تیز تھی، کچھ تو گڑ بڑ تھی، مگر میں ادارک نہ کر سکا، اور یہ تو بہت بعد میں کھلا...تب تک بہت دیر ہو چکی تھی... 

اس لڑکی کا نام ، کوئی بھی فرضی نام رکھ لیتے ہیں ، جیسے " نیما " تھا. .. تو نیما کو میں نے آفس بلایا، شہاب سے ملاقات کروائی، اور اگلے دن شہاب نے نیما کے گھر جا کر پڑھانا شروع کر دیا ، وقت رات کو سات بجے طے ہوا... میں شام کو اکثر گیریزن میس جا کر سوئمنگ کرتا تھا، اور تقریباً روزانہ شطرنج یا ٹیبل ٹینس کھیلنا معمول میں شامل تھا ... شہاب کو پڑھاتے کچھ دن  ہی  گزرے تھے، کے شہاب سے میس میں ملاقات ہوئی ... میں اسے دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گیا... پیلا زرد رنگ، آنکھیں سوجی سوجی ، چہرے پے عجیب مردنی ٹپک رہی تھی..." اوے، یہ کیا حال بنا رکھا ہے " میں نے  حیرت میں پوچھا... شہاب نے کھوئی کھوئی نظروں سے مجھے دیکھا، اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگا... مجھے شدید غصّہ آیا، اور میں نے اسے تقریباً جھنجوڑتے ہوے یہ سوال پھر دہرایا، میں کوئی ڈرامایی صورتحال نہیں بنا رہا، حقیقت یہی تھی کے وہ بندہ چند دن  پہلے اچھا خاص صحت مند تھا، اور اب تو برسوں کا مریض لگتا تھا ...

اور جو کچھ شہاب نے بتایا ، وہ سن کر تو میں کانپ گیا... سچ تو یہ ہے کے میری گگھی بندھ گیی- میں اپنے تئیں خود کو بہت بہادر سمجھتا تھا، مگر جو شہاب نے سنایا، تو مرے پورے جسم میں جیسے ٹھنڈی لہریں دوڑنے لگیں ... شہاب نے بتایا ،

 

" علی ، وہ لڑکی نہیں ایک بھوت ہے .

 

" جب دیکھو پڑھتی رہتی ہے، میں تو تنگ آ چکا ہوں ، یار جب اٹھنے کو کہتا ہوں، تو کہتی ہے، پلیز مجھے یہ ٹیسٹ تیار کروا دیں ، یار میری صحت تو اسے پڑھا پڑھا کے خراب ہو گی ہے، اس میں افلاطون کا بھوت گھس گیا ہے، مجھے بچا لو"  الله ایسے پڑھاکو بھوتوں سے سب ٹیچرز کو بچائے ، امین!


[تحریر :کاشف علی عبّاس]


0
66