مجھے اس قدر تنہا کر گیا
جب وہ شخص بچھڑ گیا
فضا میں یادوں کی خوشبو
چھوڑ کر وہ آخر کدھر گیا ؟
دل ثبات کو سکون کہاں
قضا نام تھی، حقیقت بھر گیا
سلوک و مہربانی و شفقت میں
وہ کمال انسان، مثل سحر گیا
آنکھوں نے اب خلا ہی دیکھا
مگر من میرا اس سے جڑ گیا
اسقدر ہنگام برپا ہے کہ بس
تیری مرگ سے آشیاں اجڑ گیا
جو لوگ زندگی میں براۓ نام رہے
ان کو بھی اب خیال اعزا در گیا
اب بھی اس کی تصویر دیکھ کر
گمان ہوتا نہیں ، کہ وہ مر گیا
یہی سوچ کر راحت و ڈھارس ملی
موت برحق، اور واسطہ حیدر گیا
اب رنج ہے بے انتہا، خوشی نہیں
منوں مٹی تلے، ایک اور مسافر گیا
جن سے مل کر زیست تھی تازہ تر
اب فرقت مرگ میں ، چہرہ اتر گیا
جب تلاوت خواں ہوا اس کی لحد پر
تو مرحبا! وہ شخص جنت گھر گیا
یہی ازل سے ہوتا آیا ہے کاشف
آج باپ گیا ہے ، کل کو پسر گیا

0
104