پہلا حصہ 
غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“

عبد الرحمان بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“ ۔“

اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔

غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔

استدلالی انداز بیانترميم

غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ”یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محاکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔“

غالب کے اس اندازِبیان کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوں کہ استدلال کا یہ انداز کس طرح شاعر کے جذبات و احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

قولِ محال کا استعمالترميم

غالب نے قولِ محال کے استعمال سے بھی اپنی شاعری میں حسن و خوبی پیدا کی ہے۔ قول محال سے مراد یہ ہے کہ کسی حقیقت کا اظہار اس طرح کیا جائے کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے اُلٹ معلوم ہو مگر غور کریں تو صحیح مفہوم واضح ہو۔ قول محال دراصل ایک طرف ذہنی ریاضت ہے۔ اس سے ایک طرف اگر شاعر کی قوت ِفکر کا انحصار ہوتا ہے تو دوسر ی طرف قار ی کو بھی ذہن و دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس سے شاعر لطیف حقائق کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا بلکہ حیرت و استعجاب کی خوبصورت کیفیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے اشعار دیکھیں:

ملنا تیر اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تشکک پسندیترميم

غالب کی شاعری میں تشکک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیتِ مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔ جبکہ دوسری وجہ غالب کا ماحول ہے۔ غالب نے جس دَور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔

ہیں آج کیو ں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھاہے

معانی دار پہلوترميم

حالی نے بڑے زور و شور کے ساتھ غالب کی شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ ،سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر بیک وقت کر سکتے ہیں۔ ایسے اشعار ان ترشے ہوئے ہیروں کی مانند ہیں جن کی آب وتاب اور خیرگی سے ہر زاویہ نگاہ سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک غالب کی کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

رمز و ایمائیتترميم

غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انہوں نے سیاسی او ر تہذیبی، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کاکیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں


877