انتقام 

سورج کی مدھم مدھم کرنیں پتوں پر چمکتی تھیں ، جیسے سونے کا کوئی ذخیرہ ہو جو ہوا کے دوش پر بکھر رہا ہو اور اک آگ سی لگے  تو ایسے سنہری آگ برستی تھی پتوں پر گرتی تھی اور اٹھتی تھی  اور سامنے ایک بنچ پر خاموش بیٹھے اسد میں بھی ایک آگ لگی ہوئی تھی، اس آگ نے اس کو جلا کر بھسم کر دیا تھا اس کا اک اک حصہ اس آتش میں جل اٹھا تھا، یہ عشق کی آگ تھی یہ عشق کی آتش تھی جو اسد کو فراق و ہجر کی اذیت سے دوچار کر رہی تھی - وہ غیر مریی کسی نقطے کو تکے جا رہا تھا، اس کے  ہونٹ بھینچے تھے اتنی سختی سے ملے ہوے تھے کے لگتا تھا وہ اندرونی اضطراب کو باہر آنے سے روک رہا تھا - شام کے اس پہر وہ باغ جناح لاہور میں اکیلے بیٹھا وقت گزار رہا تھا - قریب سے گزرتے ایک نو جواں لڑکا  لڑکی ، جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، بےفکری سے ہنستے ، خوش گپیوں میں مصروف ، ایک دوسرے کی قربت میں زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے، نے اسے اس کی سوچوں سے نکال دیا  ...اسد کی محویت پل بھر کو ٹوٹ گیی، اس نے زخمی نظروں سے ان دونوں کے کھلتے چہروں کو دیکھا اور نفرت سے منہ پھیر لیا - " یہ لوگ کتنے خوش ہیں ؟ زندگی ان پر کتنی مہربان ہے اور ایک میں ہوں ... ایک میں ہوں ..." وہ سوچنے لگا - وہ اسقدر متنفر ہوا کے اس کا دل چاہا کے اس کپل کے قہقے بند  کر دے، ان کے منہ پر ٹیپ لگا دے، پھر سب کو خاموش کر دے، پارک میں موجود اک اک شخص کو خاموش کر دے، ہر طرف سکوت ہو، جس میں وہ اپنے محبوب  کو سوچ سکے ، صرف وہ ہو اور اس کا محبوب ہو --- ظاہر ہے، وہ یہ سب سوچ ہی سکتا تھا عملی جامہ پہنانے سے قاصر تھا، سو اٹھا اور لوگوں کو گھورتا وہاں سے چل دیا ----

------------------------------------------------------------------


" کیا میں اپ  سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟ " اسد نے اس آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا، بلاشبہ وہ بیحد خوبصورت تھی ، اور موسم بھی بیحد سہانا تھا، مری میں اگست کا مہینہ تھا، سیاحوں کا سیزن اپنے عروج پر تھا ، اسد اس وقت مال روڈ پر جی- پی -او سے چند قدم آگے فٹ پاتھ پر بیٹھا، سگرٹ پی رہا تھا جب اس نے یہ آواز سنی  - اور اسوقت وہ بت بنا اس خوبصورتی کے مجسمے کو دیکھ رہا تھا - سنہری بال، جو سانپوں کی طرح کنڈلی مارے ہوے تھے، شہد اور دودھ جیسی آمیزش والی رنگت، داہنے رخسار پر ایک حسین کالا تل جو بیحد شوخ محسوس ہو رہا تھا، جینز اور لانگ ٹی-شرٹ میں ملبوس وہ لڑکی اس کے  حواس پر چھا چکی تھی - اسد نے تھوک نگلتے ہوے، بمشکل کہا " جج- جی فرمایئے " 


لڑکی کو شاید اپنے حسن کا اندازہ تھا، اور اس کے آفٹر ایفکٹس کا بھی، تو مسکرا کر بولی " ہماری  ایک  تصویر کھینچ دیں گے ؟" یہ کہ کر اس نہ کیمرا ، سونی کا بیحد جدید کیمرا، اسد کو تھما دیا، جو ہونق بنا لڑکی کے ساتھ کھڑے تین چار لڑکے لڑکیوں  کو دیکھ رہا تھا، جنھیں پہلی نظر میں وہ یکسر نظر انداز کر گیا تھا - اس نے اپنے اپ کو سمبھالا اور بیحد احتیا ط سے تصویر کھینچ دی ، جب وہ لوگ شکریہ کہ کر جانے لگے تو اسد نے بیحد عاجزی سے اس لڑکی سے اس کا نام پوچھا ، " ڈاکٹر" کورا سا جواب ملا، اور اسد کے مزید کچھ پوچھنے سے پہلے وہ چلی گیی ..


.وہ کچھ نہ پوچھ سکا، جب کے دل میں سوال تھے، ان گنت سوال --- کچھ دیر بعد اسے ہوش آی تو وہ اس بات پر پچھتا رہا تھا کے اس اجنبی لڑکی کا پتا وغیرہ ہی پوچھ لیتا ...ایک عجیب سی اداسی و بےکلی اس پر چھا گیی - وہ مرے مرے قدموں سے اپنے ہوٹل کی طرف چلنے لگا - اگلے دو دن اسد نے بہت کوشیش کی مگر وہ لڑکی نظر نہ آیی، اس کا ہالی ڈے ٹرپ اب ختم ہونے والا تھا، اسے واپس جانا تھا، اپنے لاہور واپس جانا تھا - وہ لڑکی بدستور اس کے حواسوں پر سوار تھی، اسد کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے صرف ایک جھلک اور دو فقرے کہنے سے کوئی اتنا یاد کیسے آ سکتا تھا، وہ اچھا خاصا خوش شکل تھا، اور آج سے پہلے کبھی کسی لڑکی کو دیکھ کر اس کی یہ حالت نہ ہوئی تھی - شاید پہلی نظر کی محبت اسی کو کہتے ہیں ، وہ محبت کو ایک خارجی جذبہ سمجھتا تھا، مگر اس لڑکی کا وہ ہنستا چہرہ اب بھی اس کے ذھن میں نقش تھا --- دوبارہ ملنے کی بہت چاہ تھی، مگر ایسا نہ ہو سکا اور اسے واپس لاہور آنا پڑا، اس کے دوست اس کی زندہ دلی کے معترف تھے، اور اسے یوں گم سم دیکھ کر بیحد حیران ہوے، مگر اسد ٹال گیا، یہ اور بات تھی کے وہ اپنے دل کو نہ ٹال سکا جو ہنوز اس لڑکی کو خود میں بسایے تھا - 

----------------------------

"اسد بیٹا چلو دیر ہو رہی ہے " اسد کی ماں نے پھر آ کر اسے کہا ، اسد کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھا تھا، اور مہدی حسن کی غزل " زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں " کمرے میں گونج رہی تھی - 

" ہوں" اسد نے مختصر سا جواب دیا، اور اس کی ماں اپنے بیٹے کے اس بدلے بدلے رویے کو پہچان نہ پا رہی تھی، ایک گہری نظر اس پر ڈال کر وہ پلٹ گیی-

آخر اسد خود کو کوستا اٹھا، شیو کی اور کپڑے بدل کر  باہر پورچ میں بہنچا، جہاں اس کی ماں اس کا انتظار کر رہی تھی ، اسد برا سا منہ بناتا کار میں بیٹھ گیا، اس کی ماں نے کار چلتے ہی اس سے پوچھا 

" کیا بات ہے چندا؟ موڈ آف کیوں ہے، جب سے مری سے واپس ایے ہو ، کھوے کھوے سے رہتے ہو " 

" کچھ نہیں امی بس کام کی تھکاوٹ ہے " اسد نے نظرے جھکاتے ہوے کہا، وہ اپنی ماں سے جھوٹ بولتے ہمیشہ ہی پکڑا جاتا تھا، اور آج بھی اس کی ماں کے چہرے کے تاثرات سے صاف ظاہر تھا کے وہ اس جواب سے مطمئن نہیں ، مگر خاموش رہی - وہ آج اپنی قریبی سہیلی مسز علوی کے گھر اسد کی بات پکی کرنے جا رہی تھی، اور ایسے موقع  پر بدمزدگی نہیں چاہتی تھی - جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو مسز علوی اور ان کی بیٹی ماہ جبیں پورچ میں کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے - اسد کی ماں نے کھانے کے بعد ہی شادی کی بات چھیڑ دی، اور اسد نے اپنی ماں کی اس عجلت پر فہمائشی نظروں سے اسے دیکھا،  ماہ  جبیں سرخ چہرے کے ساتھ جھجکتی وہاں سے اٹھہ گیی، اور مسز علوی نے آگے بڑھ کر اسد کی پیشانی چومی، اور کہا " میں تو ہمیشہ سے اسے اپنا بیٹا ہی مانتی تھی " دونو سہیلیاں خوش تھی، اور اسد کے دل میں چھریاں چل رہیں تھیں --- وہ دونوں اس کے اندرونی اضطراب سے بےخبر تھیں، اسد کو لگا جیسے وہ قربانی کا بکرا بن چکا ہے، مگر وہ اپنی ماں کو دکھی نہیں دیکھہ سکتا تھا، لہٰذا چاہ کر بھی انکار نہ کر سکا ---اور اپنی ناکام محبت کا دل ہی دل میں ماتم منانے لگا ----

-----------------------

دل گزرتے رہے ، وقت پر لگا کر اڑتا رہا، ماہ جبیں کو اسد چارو نا چار ذہنی طور  پر کسی حد تک قبول کر چکا تھا ، مری کی اس ڈاکٹر کی یاد اب بھی اسے تڑپاتی تھی، مگر وہ حالات سے سمجھوتہ کر چکا تھا، سراب کے پیچھے مزید بھاگنا عقلمندی نہیں تھی -آج ماہ جبیں کی سالگرہ میں شرکت کرنے وہ اپنے دوست کے گھر سے نکلا، اس کی ماں پہلے ہی مسز علوی کے گھر موجود تھی، راستے میں ایک گفت شاپ پر اس نے کار روکی، گفت لے کر جو نہی وہ سڑک پار کرنے لگا، تو ایک بےقابو گاڑی اس کو ٹکراتی ہوئی نکل گیی - وہ اس دھچکے سے پشت کے بل گرا، اسے  چند معمولی خراشیں آییں، مگر اس کے داہنے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا، تکلیف کو برداشت کرتے وہ اٹھا، اور اس کی نظر سامنے ایک ہاسپٹل پر پڑی، اسد تیز تیز قدم اٹھاتا ہاسپٹل کے ڈریسسنگ روم میں پہنچا، نرس اسے کچھ دیر انتظار کرنے کا کہ گیی اسی اثنا میں دروازہ کھلا مگر اندر آنے والے کو دیکھ کر اسد کا دل بند سا ہوا، اچانک دھڑکا ...اس کے سامنے وہی تھی، وہی ڈاکٹر جس نے اس کی کیی مہینوں سے نیندیں حرام کی ہوئی تھیں- بیکوقت مسرت اور حیرت کے  ملے جلے جذبات میں اسد بےاختیارمسکرانے لگا، اسے حقیقی خوشی محسوس رہی تھی - ڈاکٹر جو اب تک اس کو نہ پہچانی تھی، حیرت سے اپنے اس مریض کو دیکھ رہی تھی، جو ایک خوش شکل نوجوان تھا، جس کے ہاتھ سے خون بہ رہا تھا اور وہ مسکرائے چلے جا رہا تھا ..." آج کل پاگلوں کی کوئی کمی نہیں " اس نے سوچا اور پھر چپ چاپ ذرا  احتیا ط سے اس کے ہاتھ کی ڈریسسنگ کرنے لگی ، اسے پاگلوں نے بیحد ڈر لگتا تھا، اور وہ شخص اسے پاگل ہی لگ رہا تھا، ڈریسسنگ کرتے ہی وہ اتنی تیزی سے بھاگی جیسے اس کے پیچھے بھوت لگے ہوں، دروازہ بند کرتے غیر ارادی طور پر اس کی نظر اس مریض پر پڑی، اس کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں آیی تھی، اس نے جھنجلا کر دروازہ زور سے بند کر دیا


--- گھر جاتے ہوے اسے لگا، کے جیسے ایک سیاہ رنگ کی کار اس کا تعاقب کر رہی تھی، وہ مسلسل بیک ویو مرر میں اس کار کو دیکھ رہی تھی، وہ فطرت میں بہادر تھی، سو نظرانداز کرتے ہوے سکون سے ڈرائیونگ کرتی رہی --- لیکن جب وہ گھر والی سٹریٹ میں پہنچی جسے رکاوٹوں سے بند کیا ہوا تھا، تو وہی کار اسے پھر اپنے پیچھے نظر آیی ، اس نے آنکھوں پر زور دے کر ڈرائیور کو پہچاننا چاہا، مگر بلائنڈز لگے ہونے کی وجہہ سے وہ نہ دیکھ سکی، اس نے کار اپنے گھر سے چار پانچ گھر پہلے روک دی، اور انتظار کرنے لگی ... وہ سیاہ کار بھی اس سے کچھ دور پیچھے رک گیی ... چند لمحے بیحد اعصاب شکن تھے، پھر اس نے موبایل نکالا اور اپنے کزن ایس-پی جواد کو فون کرنے لگی، نمبر بزی جا رہا تھا --- تبھی اس سیاہ کار کا دروازہ کھلا، اور ڈاکٹر کو اپنے دل کی دھڑکن تیز ہوتی محسوس ہوئی...وہی تھا جس سے وہ فرار  اختیار کئے ہوۓ تھی ۔۔اس لمھے ایک گولی چلنے کی آواز آئ اور اگلے لمحے وہ جان کنی کے عالِم میں زمین پر تڑپ رہی تھی ۔۔اس شخص کے بے حس چہرے پر ایک گہری طنزیہ مسکرا ہٹ تھی جیسے کہ رہا ہو کہ میں نے انتقام لے لیا ۔بے وفائی کا قتل سے انتقام ۔۔۔اس نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور پیر پٹختا نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ 


Written By Kashif ALi Abbas


0
80