ماتم و گریہ کہاں،غم خواری کہاں |
اک فقط دنیا سے ہی بیزاری کہاں |
جسم بکتے ،رات دن، کوچہ میں بہت |
شب کدھر سویا، کہوں کیا باری کہاں |
بچھڑا وہ تھا جب گھڑی ٹھہری تھی مری |
کیا وہ صحبت تھی ، رہی وہ یاری کہاں |
دل کہ مظطر اس شکستہ منظر پہ ہے |
الوداعی نظروں میں عیاری کہاں |
عشق کا میں تو ڈسا ہوں، مارا سہی |
ہاں ستم گر، عشق میں تم ماری کہاں |
خوبصورت ہے بہت میں قائل مگر |
سامنے تم میرے ہو بس پیاری کہاں |
غیر کی تھی تم، پتا بھی کاشف کو تھا |
چپ رہا میںں ، پر ملی تم ساری کہاں |
معلومات