کسی عشق میں ہوں سر تلک ڈوب چکا ہوں
لگی ضرب تازہ یوں تبھی اوب چکا ہوں
کسی کا نہیں سگا ، یہ کمبخت عشق ہے،
مزہ کیا، میں جان اب اسے خوب چکا ہوں
قرائن جو کشمکش کریں پیدا وہ سہی
ابھی حسن یار سے، ہو مرعوب چکا ہوں
ٹھکانے جو ہیں طلسم بن کر یوں ابھرے ہیں
کوئی لیلیٰ کوئی مجنوں مجذوب چکا ہوں
ارادہ کیا مگر یہ کیا بھید ہے چھپا
ہو کاشف، ستم زدہ کا محبوب چکا ہوں

264