جناب مستنصر حسین تارڑ صاحب سے ایک حسین صبح ملاقات ، جب بقول اقبال حسن سوگوار  تھا ۔باغ میں مرغان چمن ناچتے تھے ۔مراد باغ یہاں پر جنت کا باغ نہیں بلکہ ماڈل  ٹا ؤن  پارک لاہور مراد ہے ۔ میرا دل بڑی تیزی سے دھڑکتا تھا ۔ میں اپنی پسندیدہ شخصیت یعنی تارڑ صاحب سے ملاقات کا کشکول اٹھائے ، بے چینی سے ان کی راہ تکتا تھا ۔پارک میں چہل پہل تھی،اچانک ایک طرف شور کا غلغلہ  سا اٹھا،میں نے گھبراتے قلب کے ساتھ اپنا دسواں سیگرٹ بھجا کر فوری ادھر دیکھا ۔مگر وہ تو یوگا کلاس کے بزرگ بچے شور مچا رہے تھے ۔ تو میں نے اپنے بے قابو دل کو تسلی دی کہ Not Tonight Not Now جیسا نپولین نے جوزفین کو کہا کچھ یہی کچھ میں نے دل ناداں کو کہا کہ تجھے ہوا کیا ہے ۔یہ تارڑ ملاقات کی دوا کیا ہے ؟ یہ داستان کیا ہے ؟

داستان مختصر یہ ہے کہ بچپن سے تارڑ صاحب کا مداح تھا ان کے سب ناول خرید کر پڑے ، خرید پر زور دے رہا ہوں ۔ تارڑ عشق مجھے ہو چکا تھا ۔ ایک پیج بھی فیس بک پر ٢٠٠٩ میں بنا ڈالا جو اولین پیج بنا ۔ تسلی نا ہوئی تو ان پر معتدد  کالمز ، تحریریں ، انگریزی اور اردو زبان پر شاعری وغیرہ کر ڈالا ۔مگر ہنوز دلی دور است ۔ کچھ ویرانی سی ویرانی تھی ۔ کیوں کہ روز پیج پر اپنے ایڈمنز کو تارڑ صاحب سے ملاقات کرتے دیکھتا تھا ۔اور کلیجہ مسوس کر رہ جاتا تھا ۔تو اس تشنگی کو دور کرنے میں ہمت مجتمع کر کے آج یہاں بغیر ٹائم لیے آن پہنچا تھا ۔مگر اب گھبرا رہا تھا ۔دل ڈوبتا تھا کہ ملوں گا تو کیا کہوں گا ۔تارڑ صاحب کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ ایک شخص ١٣ سالوں سے ان سے ملنے کا سوچ سوچ کر آج گھات لگا کر سگرٹ سلگا کر ایک ان کا فین ملنے کو تلا ہوا ہے اور بری طرح تلا ہوا ہے ۔

تو جناب ذرا کہانی کا ٹمپو تیز کرتے ہیں ۔ میرا پہلا نشانہ پارک کی کینٹین تھی کیوں کہ ایسی جگہوں پر بڑے لوگوں کا پتا چل جاتا ہے ۔ جب استفسار کیا تو کینٹین والا اپنی داڑھی کھجاتے بڑے رسسان سے گویا ہو ا * وہاں درخت جس پر تکیہ تارڑ لکھا ہے وہاں بیٹھتے ہیں وہ * اس نے انگلی سے ایک جانب اشارہ کیا جہاں ایک old is gold  قسم کا درخت تھا ۔ * کیا وہ آج آ رہے ہیں * میں نے اسی وقت دوسرا سوال کا میزائل داغ دیا جس پر وہ ظالم بور ہو گیا کہ یہ خریدتا کچھ نہیں بس سوالات کیے جاتا ہے ۔* پتا نہیں " اس نے قدرے سختی اور درشت لہجے میں مجھے ٹکاسا  جواب دے دیا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔پہلے تو میری بلند و بالا Ego شدید ہرٹ ہوئی عام زندگی میں مجھے سے کوئی ایسے بات کرے تو میں ۔۔۔خیر معاملہ   تارڑ صاحب کا تھا تو غصے کو   ضبط کیا چہرے پر ایک منافقانہ چانکیہ مسکراہٹ لایا اور بڑے لاڈ سے پوچھا * گولڈ لیف ہے ؟ پیپسی ہے ؟ منرل واٹر ؟ چپس ؟* کوئی چار پانچ سو خرچ کر کے اس باریش مولوی سے پھر پوچھا تو پیسا پھینک تماشا دیکھ والا فارمولا کام کر چکا تھا مولوی صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ تھی چہک کر بولے * ابھی ابھی یہاں سے گزرے ہیں وہ ،تھوڑی دیر میں اسی درخت کے نیچے وہ اور ان کے دوست یار بیٹھیں گے "میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور زیر لب جو کہا وہ یہاں سنسر ہو جانا ہے تو آگے چلتے ہیں ۔میں جیمز بانڈ کے کسی مشن کی طرح اس درخت سے محفوظ فاصلے پر ایک لکڑی کے بنے کیبن میں بیٹھ کر درخت کی طرف جاتے لوگ اور نقل و حمل کا جائزہ لینے لگا ۔ تبھی ایک دھان پان سی لڑکی سیدھا اس درخت کے پاس پہنچی۔ اور کرسیاں لگانے لگی ۔ویٹر ( کینٹین ) کو ساتھ ساتھ ھدایت بھی دینے لگی ۔ میں تیر کی طرح اس کے پاس پہنچا اور منزل مقصود یعنی تارڑ صاحب دی گریٹ کی بابت پوچھا کچھ اپنا بتایا ۔ اس نے مجہے بے اعتنائی سے دیکھا ۔ ایک آخری سوٹا لگا کر بے زاری سے بولی " ادھر بیٹھ جاؤ ، ابھی آ جاتے ہیں " میرا بڑا دل چاہا کہ کہوں کہ بیبی میں ایک یونیورسٹی پروفیسر ، css قولیفائد ، اسسستنٹ کمشنر امتحان میں آزاد کشمیر میں سیلکٹد ہوا شدہ ، رایٹر اور پہلی بک امریکا میں پبلشد اور بہت کچھ ۔مگر ایک ڈانٹ  کھائے بچے کی طرح سر جھکا کر چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گیا ۔ چانکیہ سیاست مجہے خاموش رہنے کا کہ رہی تھی تو خاموش تو رہا ہاں برے برے منہ بھی بناتا رہا جیسے کڑوے کریلے ثابت چبا رہا ہوں ۔صدیاں بیت گیئیں اور پھر اچانک ۔۔۔

سامنے مرے محبوب رائٹر عظیم ادیب چاچا جی تارڑ صاحب چلے آ رہے تھے ۔ مجھ کو یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ ان کے ساتھ میرا ایک پیج ایڈمن (٢٠١٢-١٣) کافی پرانا رانا عثمان بھی تھا ۔ بے قابو دھڑکنیں کچھ نارمل ہوئیں تب تک تارڑ صاحب مرے پاس سے گزرتے مجھ پر ایک اچٹتی سی نگاہ غلط انداز ڈالتے میرے بلکل سامنے والی کرسی پر بیٹھ چکے تھے ۔میں ٹک ٹک دیدم نا کشیدم ہنوز کھڑا تھا اور سالوں سے اپنی دیرینہ خوا ہش کو حقیقت میں بدلتے دیکھ رہا تھا ۔ سالوں کا فاصلہ چھے کرسیاں دور میں بدل چکا تھا ۔تارڑصاحب نے جب مجہے ہونق انداز میں منہ کھلا کھڑا دیکھا تو ہلکا سے مسکراۓ اور ہاتھ کے اشارہ سے بیٹھنے کو کہا ۔اور میں ایسے دھڑ ام سے بیٹھا جیسے خالی بوری گرتی ہو ۔آپ یقین کریں میں مبالغہ انگیزی سے کام نہیں لے رہا من و عن ایسا ہی ہوا تھا ۔

تب اس لڑکی نے کہا  اور میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا سر یہ آپ سے ملنے آئے ہیں ۔اور میں نے کورٹ میں اعتراف جرم کرنے والے مجرم کی طرح ہاں ہاں میں گردن زور زور سے ہلائی ۔تبھی  تارڑ صاحب مجھ سے مخاطب ہوۓ اور کیا ہی خوب مخاطب ہوۓ کہ مرے چھکے چھوٹ چکے تھے ۔ ان کے ہاتھ میں سیگرٹ تھا ، چہرے پر مسکراہٹ اور پوچھا 

" جی کون ہیں آپ ؟" انہوں کش لگایا 

میں نے رٹے رٹا ئے طوطے کی طرح تیز تیز جواب دیا 

" جی سر ۔وہ میں آپ کا بہت بڑا فین ہو سر جی "

اس پر ان کی مسکراہٹ گہری ہو گیئی 

" بھئی کون ہو کیا چاھتے ہو کیا تعارف ہے کیوں آے ہو؟ "  ان کے انداز میں شرارت تھی ۔ وہ میری بوکھلاہٹ کا حظ اٹھا رہے تھے ۔ اس سوال پر میں نے ایک عمدہ مسکراہٹ ان کی طرف پھینکی اور کہا 

" سر میں آپ کا سالوں سے فین ہو ں میں پڑھاتا ہوں انگریرزی ۔آپ کا ایک پیج بھی بنایا ہے ۔آپ کے ساتھ ایک تصویر بنانا چاہتا ہوں مگر آپ کے قدموں میں بیٹھ کر ۔جیسے آپ نے اپنے آیڈیل رسول حمزہ طوف کے ساتھ بنوائی تھی " میں نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہ دیا ۔ رسول حمزہ کا نام سن کر وہ خوش ہوۓ اور ساتھ ہی کہا " مگر آپ مرے ایسے فین نہیں بن سکتے جیسے میں ان کا ہوں * 

میں نے ہاں میں ہاں ملائی ۔ انھوں نے کمال شفقت کی اپنے پاس بلایا ۔ساتھ والی کرسی عنایت کی ۔سلفی لی مرے ساتھ ۔ اپنا موبائل نمبر دیا (ذاتی) ۔اور پھر تو دبستان کھل گیا میں نے جی بھر کر ان سے ان کی کتابوں کے حوالے سے باتیں کیں ۔اس دوران ان کے کافی دوست آ چکے تھے ۔ناشتے بھی آ چکے تھے ۔چایے اور لسی بھی کلچے اور فروٹ ٹرائفل بھی ۔ تو میں نے اپنے محبوب مصنف کے ساتھ یہ سب چیزیں نوش جان کیں ۔اچھا خاصہ بندوبست تھا ویری گڈ ۔ اس دوران ان کے دس بارہ دوست جو ذرا دور براجمان تھے وہ تارڑ صاحب کے اس قدر پاس ایک اجنبی بوتھی یعنی مجھ ناچیز کو دیکھ کر شدید اچنبے میں اور حیرت کے غوطے کھا رہے تھے ۔اور مجہے مزے مزے لے کر کھاتے بھی دیکھ رہے تھے وہ سوٹے والی لڑکی بھی کچھ حیران تھی ۔آخر ایک صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے پوچھ ہی لیا کہ ان کا تعارف کیا ہے ۔تو تارڑ صاحب نے برجستہ جواب دیا " کافی مخدوش سا تعارف ہے " جس پر ہر طرف قہقے گونجے اور میں بھی بے اختیار ہنس پڑا ۔اس 3 گھنٹے کے دوران مختلف موضوعات پر سب بات کر رہے تھے ۔ جس سے میرے علم میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا مگر محفل کی جان تو تارڑصاحب ہی تھے ۔ ان کے برجستہ جملے اور شگفتگی اتنی زیادہ تھی کہ ہنس ہنس کر میری بتیسی باہر آ چکی تھی ۔ان کے میزائل ہر ایک پر گر رہے تھے مگر سب ہنس ہنس کر مسکرا مسکرا کر لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ایک صاحب نے اچانک گانا شروع کیا تو دوسرے نے جو خاموش بیٹھے تھے تان لگائی ہی تھی کہ تارڑ صاحب نے ٹوک کر کہا ': جدوں وڈا کنجر گا ریا ہے تے چھوٹے کنجر نوں چپ رہنا چنگا ہے " جس پر ہر طرف قہقے چلے ۔میں تو اس پنجابی بے ساختگی پر منٹوں ہنستا رہا تھا ۔غرض کہ اس طرح کے چٹکلوں میں صدیاں بیت گیئیں ۔

پھر وقت رخصت میں نے نم آنکھوں سے اس عظیم با اخلاق ادیب و انسان کو رخصت کیا ۔ بعد میں بھی ان سے واٹس ایپ پر رابطہ رہا جو آج بھی قائم ہے ۔ان سے ملاقات ایک یادگار سنہری یاد تھی جو میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا ۔وہ ایک شاہ گوری تھی ۔تو کل کس کس نے کل شب شاہ گوری کو خواب میں دیکھا ۔نیلے بدن والی شاہ گوری جس کی نیلاہٹ اور شمال کے آخری گاؤں کی لڑکیوں کے دودھیا بدن جو دیکھنے سے میلے ہوتے ہیں تو کل شب کس نے شاہ گوری کو خواب میں دیکھا ؟

تحریر ؛:  کاشف علی عبّاس 







0
143