سادہ دل تھے نشہ چڑھا جب پانی کا گھونٹ لیا
وفا پرچم لئے چلتے تھے تبھی دنیا نے لوٹ لیا
کوئی تو غمگسار ایسا ہوتا جو دل جوڑتا مگر افسوس
غیروں سے کھا کر دھوکے اپنوں نے لوٹ لیا
اگر زندگی عارضی نا ہوتی یہاں تو ناراضی نا ہوتی
دل لگی ہو یا بے خودی بھولپن میں لوٹ لیا
یہ پتھر دل لوگ کب پسیجے ہیں، در گزر ہی بہتر
ادھر دھیان بھٹکا نظر الجھی اور بس لوٹ لیا
قزاق ہو تم نا ہی ڈاکو ، یہ بھیس جوگی کاشف
کبھی تم نے لوٹ لیا کبھی اس نے لوٹ لیا

0
60