ثباتِ ہستی منظورِ خدا گر مدعا ہوتا
فرشتہ پھرعبادت کیا مسلسل کر رہا ہوتا
قضا ہوتی بقا ہوتی عجب دنیا بنی ہوتی
یہ انساں پر مگر وقتِ بلا سا گِر پڑا ہوتا
حقیر و ادنی باطن ظاہری خوبی ترا چہرا
وہ چہرہ جو نظر آتا، میں زندہ ہو رہا ہوتا
ترے ہوں عشق میں، مدت گزاری آرزو رکھ کر
مگر اے کاش عشقِ نارسائی میں مرا ہوتا
اسے کہہ لو، جو کہنا ہے، فقط ہے بد نصیبی کیا
پیالہ مختصر عمرِ رواں کا گر بھرا ہوتا
چلو کاشف، لیا جی بھر گھڑی تیاری کی ہے اب
یہ ملک الموت دیکھے رنگ حیدر ہی چڑھا ہوتا

0
1
313
ماشآاللہ

0