Circle Image

خواجہ امید محی الدّین

@150247

نیدرلینڈ

وہ تکلّفاً تھا جو کہہ دیا ترا مُدّعا کوئی اور ہے
مری رہ گزر کوئی اور تھی ترا راستہ کوئی اور ہے
سرِ حشر جا کے کروں گا کیا کہ مَیں خود سراپۂ حشر ہوں
مجھے حُور وُور نہیں چاہئے مرا دلربا کوئی اور ہے
قبلہ شیخ صاحب کی طنز کا مرے دوست کوئی نہ فکر کر
انہیں کیا خبر شبِ ہجر کی یہ معاملہ کوئی اور ہے

0
7
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر

0
31
تری آنکھ میں جو شباب ہے
ہمہ رنگ ہے بے نقاب ہے
ترے گیسوؤں کی گھٹا گھٹا
دلِ مضطرب پر عذاب ہے
مجھے میکدوں سے غرض نہیں
ترا انگ انگ شراب ہے

0
21
یادِ ماضی ہے یا بیماری کوئی
ذہن کے کمروں میں الماری کوئی
پہروں کھوئے رہتا ہوں اسکول میں
یا کبھی کالج کی راہ داری کوئی
امتیاز و بھٹّی و افضل کے ساتھ
ساتھ ہے ہر وقت کی یاری کوئی

0
14
ارادہ تھا کہ اُن سے آج کوئی بات ہو جاتی
کسے معلوم تھا کہ بات میں ہی رات ہو جاتی
بہت اچھّا ہؤا کہ بحث تک نوبت نہیں آئی
وگرنہ آج کی تفریط کل افراط ہو جاتی
بڑا اودھم مچایا خشک موسم میں بھی رندوں نے
نہ جانے کیا غضب ہوتا اگر برسات ہو جاتی

0
18
تم آفتاب ہو یا کوئی ماہتاب ہو
لگتا ہے سارے غوریوں میں لا جواب ہو
برگیڈئر ہو ڈاکٹر ہو سائنسدان ہو
جس کو کوئی سمجھ نہ سکے وہ کتاب ہو
عبادت کے ساتھ ساتھ ہیں کچھ اور کام بھی
کھڑکی اگر کھُل جائے تو دوہرا ثواب ہو

0
15
اک بار اگر خواب میں آ جاؤ مسافر
یادوں کا کنول آ کے کھلا جاؤ مسافر
کس قدر تمہیں انس تھا غزلوں سے اے جاناں
آ جاؤ کوئی قطعہ سنا جاؤ مسافر
ہر مصرعۂ ثانی پہ نئی گرہ لگانی
یہ آمد و آوُرد بتا جاؤ مسافر

0
20
روحِ سخن ہو تُم ہی غزل کا نکھار ہو
آئے کبھی خزاں نہ تم ایسی بہار ہو
بھٹکا ہؤا راہی ہوں کسی ریگزار کا
تم ریگزاروں میں بھی شجرِ سایہ دار ہو
مانی تھیں مَیں نے منّتیں کعبے کے روبرو
جنّت وہاں ملے جہاں دیدارِ یار ہو

0
19
بیٹھے ہیں اسی راہ پہ بچھڑے تھے جہاں سے
وابستہ ہیں پر آج بھی اس دردِ نہاں سے
اس آدمِ خاکی کی اِڑی خاک زمیں پر
بے قدرئی افلاک سے کچھ عشقِ بتاں سے
کچھ سال نہیں آدھی صدی کی ہے حقیقت
آئے تھے بڑی شان سے جب خُلدِ زماں سے

0
22
متفرّق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل جہاں پر شہر بستے تھے وہ ویرانے ہوئے
جن سے گاڑھی چھِنتی تھی وہ جانے انجانے ہوئے
سرحدوں کی باڑ پر جن کا تقرّر تھا وہ آج
پھر رہے ہیں شہر میں سب برچھیاں تانے ہوئے

0
19
قتل گاہیں سج گئی ہیں باندھ لو سر پر کفن
مار ڈالو پھونک دو سب سبزہ و سر و سمن
قتل کر دو ہر کسی کو سرخ کر دو یہ زمیں
کیا فلک کیا آسماں کیا بچّہ بُوڑھا مر د و زن
سہمے سہمے بال و پر کے ساتھ سوئے عرش ہیں
کرگس و کنجشک و بلبل فاختہ زاغ و زغن

0
22
چھیڑو نہ فسانے محمل کے اور دارو رسن کی بات کرو
جس رنگ پہ آئی ہے محفل اس طرزّ سِخن کی بات کرو
کیا تیر چلے مظلوموں پر کیا آگ اور خون کی بارش ہے
تم کون تھے اب کیا ہو سارے کچھ دورِ کُہن کی بات کرو
وہ دیکھو آگ کی بارش نے کتنے معصوم جلا ڈالے
جو لِوٹی غیروں نے مِل کر اس دختِ وطن کی بات کرو

0
19
قطعۂ روشن*
اِک فردِ یگانہ کی محبت کی ہے تمہید
جس میں ہیں سمٹ آئے سب آثارِ صنادید
تفصیل طلب پیشِ جنوں اُس کے ہیں احوال
اوصاف میں ہے وسعتِ بے ساحل و تحدید
وہ عاشقِ مختارِ دو عالم ہے ازل سے

0
20
فلسطین کے بے بس و مجبور شہداء کے نام جو یہ جنگ ہارے نہیں جیت گئے ہیں ۔۔۔۔ اور باقی چھپّن اسلامی ممالک یہ جنگ اسلئے پوری طرح ہار چکے ہیں کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اور یہ سبھی بے ضمیر اور بے غیرت حکمران ہیں جنہیں اپنے قصرِ شاہی چِھن جانے کا خطرہ ہے جنہیں اپنی عیاشیوں کے لئے بلینز آف ڈالرز چاہئیں جو بالآخر قحبہ خانوں قمار خانوں اور ہر روز ہزاروں لاکھوں عورتوں اور رنڈیوں کو دادِ عیش دینے پر لٹائے جاتے ہیں حالانکہ یہ ان سب کی خام خیالیاں ہیں کیونکہ فلسطین کے بعد اسرائیل ان سبکو باری باری دبوچے گا کیونکہ اسکے لئے فلسطین ایک لٹمس ٹیسٹ تھا اور اس ٹیسٹ سے اس پر واضح ہو چکا ہے کہ مسلمان محض ایک ٹولہ ہیں ایک ہجوم ہیں ایک عضوِ معطّل ہیں انہیں ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں اور تب ان پر نہ فلک روئے گا نہ زمین
کیونکہ ان چھپّن ملکوں کے حکمرانوں میں اکثر اسرائیلی ایجنٹ ہیں اور شاید کچھ نطفۂ یہود بھی ہوں
؀ حمیّت نام ہے جسکا گئی گنجِ مسلماں سے

0
24
دیکھ لینا ایک دن خونّ شہیداں کا کمال
کچھ دنوں کی بات ہے تجھ پر بھی آئے گا زوال
یہ فلک یونہی نہیں نا یہ زمیں ہے کھیل کُود
ٹوٹ جائے گی ہر اک شے جب کہے گا ذوالجلال
تیری میری میری تیری ایک دھوکہ اک فریب
میری تیری تیری میری کیا مثال و کیا مجال

0
32
سوچتا رہتا ہوں ایسی باتیں اب شام و سحر
آنکھ کھولوں تو پرانے دوست آ جائیں نظر
نہ کسی کا فون آتا ہے نہ کوئی بات چیت
میرے ساتھ ہی ایسا ہے یا باقی بھی زیر و زبر
جانچتا رہتا ہوں مَیں بدلا نہیں پر پھر بھی وہ
کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں مجھ کو دیکھ کر

0
23
اُمّتِ مسلم یہ خاموشی تری
مار ہی ڈالے گی بیہوشی تری
چشم پوشی کر لی غافل ظُلم سے
مصلحت یا عافیت کوشی تری
وہم ہے تیرا کہ یوں بچ جائے گا
تجھ کو لے ڈوبے گی مد ہوشی تری

0
24
شاخ سے بچھڑا تو ہر طوفان نے پالا مجھے
آندھیوں نے لوریاں دیں ضبط میں ڈھالا مجھے
آپکو لے بیٹھا واللّہ پارسائی کا جنوں
بس یہی اک فرق تھا جس پر کیا بالا مجھے
آہ وہ آنکھوں کی مستی آہ وہ شامِ غزل
آپ کی اٹھکیلیوں نے مار ہی ڈالا مجھے

0
27
دِلِ بیتاب کی بیتابیوں نے کیا ستم ڈھایا
جسے سوچا نہیں تھا اس پہ ظالم دل مچل آیا
اگر سارے ٹھکانے یک بیک معدوم ہو جائیں
تو ایسے میں سہارا دے گا بس ماں باپ کا سایہ
زمانے تُو نے آخر دو دلوں کو توڑ ہی ڈالا
مگر اتنا تو بتلا دے کہ ظالم کیا ثمر پایا

0
32
رو رو کے اپنے آپ کو ہلکان کر لیا
رنج و مِحن کو زیست کا عنوان کر لیا
یہ بھی توارتقا ہے مرے ناقدِ حضور
فارغ خطی نے خاک کو انسان کر لیا
گھر سے چلے تو عزّت و تکریم سے چلے
اِس عشقِ نامراد نے دربان کر لیا

0
36
تم کو پانے کی خواہش میں اتنا چکنا چُور ہؤا
ہر اک موڑ پہ منزل آئی ہر اک موڑ پہ دُور ہؤا
تم کو پاہی لوں گا اک دن لیکن آگے بھی تو سُن لو
گر تم میرے پاس رہو اورقسمت کو منظور ہؤا
جس کے لئے مجھکو ٹھُکرایا، اُس نے بھی جب چھوڑ دیا
سُن کر ٹھیس جگر کو پہنچی جان کے دل رنجُور ہؤا

0
40
ٹکٹکی لگا کے جس کو دیکھنا عجیب تھا
وہ پاس آ گیا تو کسی اور کا نصیب تھا
دُور سے یہ بات کسی رازداں نے یوں کہی
جوآج تیرا دوست ہے وہ کل ترا رقیب تھا
میدانِ حشر سج گیا صدائے حق ہوئی بلند
یہی تو ہے وہ پیشہ ورجو نامورخطیب تھا

0
31
کچھ تو ہو ادراک کہ کیسے گزاری زندگی
چند سالوں کی نہیں ساری کی ساری زندگی
کس لئے آئے یہاں پر بھیجنے والا ہے کون
کیا کوئی مقصد بھی ہے کس نے اتاری زندگی
آئینہ دیکھا تو مجھ سے برملا کہنے لگا
تیرے روز و شب فقط مردم شماری زندگی

0
27
جس نے آکر مجھے نیند سے بیدار کیا
تُو وہی حُسنِ تمنّا ہے جسے پیار کیا
جانے کیوں لوگ ہر اک بات پہ اصرارکریں
اچھّا کہتے ہیں تو اس بات کا اقرار کیا
لوگ کہتے ہیں کہ اک اور بھی ہے یارِ عزیز
مَیں نے جب پوچھا تو بے کیف سا انکار کیا

0
29
دیکھ کر اس کو مرے ہاتھوں سے پیمانہ گرا
اتنا گھبرایا کہ جیسے پُورا میخانہ گرا
پکڑ کر ہاتھوں میں اپنے گیسوؤں کو دلربا
دیکھنا کیسے تری زلفوں کا دیوانہ گرا
جس کو بھی دیکھو صنم وہ زندہ رہنے کا نہیں
ورنہ خود ہی دیکھ لو کیسے صنم خانہ گرا

0
30
جوڑ دے مجھ کو خدایا جوہرِ قُرآن سے
ہادئی علم و عمل سے دین سے ایمان سے
سوچ کے دھارے منزّہ ہوں عمل کے نُور سے
موسیٰ پیغمبر بنے تھے جیسے اثرِ طُور سے
پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں کچھ نہیں تیرے سوا
کاش ہو جائے کرم مَیں ہوں گداؤں کا گدا

0
28
آئینے کا سامنا کرنا کبھی آساں نہ تھا
میرے پاس اس کے علاوہ دُوسرا درماں نہ تھا
قسم تو کھائی تھی اب ترکِ محبّت کی مگر
لیکن اُس کی رُوح میں اللّہ نہ تھا یزداں نہ تھا
بادِ صَر صَر چلتی ہے چلتی رہی اس بار بھی
آندھیوں کی گود میں ایسا کوئی طوفاں نہ تھا

0
25
اے ابرِ کوہسار کبھی خشکیوں پہ آ
تُو جان جائے گا کہ ہے تیری بساط کیا
نو سال جیل کاٹ لی تو جج نے یہ کہا
تُو بے قصور ہے تجھے جا کر دیا رہا
تجھ کو غزہ مَیں بھُولا نہیں با خدا نہیں
بازی پلٹ دے آج ہی آ جا مرے خدا

0
44
اس شہر میں وہ صاحبِ کردار نہیں ہے
جو مفلس و نادار کا غمخوار نہیں ہے
جب غربت و افلاس سے ہوں جان کے لالے
پھر کوئی ترے عشق کا بیمار نہیں ہے
ہر سمت گرانی کا وہ طوفاں ہے کہ واللہ
یوسف تو ہزاروں ہیں خریدار نہیں ہے

0
34
بیکار ہے اب شکوۂ اہلِ بتاں امید
رکھّا ہے جہاں تیر وہیں پر کماں امید
مسجد کلیسا مندر و کعبہ اداس ہیں
گریہ کناں ہو صبح تو کیسی اذاں امید
امروز حالِ فردا پہ مایوس و مضطرب
ماضی بھی محض قِصّۂ عشقِ نہاں امید

0
37
جانے والے تو چلے جاتے ہیں ان کو کیا خبر
اہلِ خانہ یاد کرتے ہیں انہیں شام و سحَر
کون اب راتوں کو اُٹھ کر ہاٹھ پھیلائے گا ماں
کون میرے درد پر روتا رہے گا عمر بھر
تجھ کو جانا ہے تو جا پر لے جا اپنی یاد بھی
تیری یادوں نے بنایا مجھکو امّی نوحہ گر

0
24
دیکھ کر مجھ کو وہ پہچان نہیں پایا امید
اس کی دانست میں شاید تھا مرا سایہ امید
اس کی آمد پہ سبھی ارض و سما جھوم اٹھے
چاند تاروں نے کہا دیکھ لو کون آیا امید
بندوبست آج بھی فیسوں کے لئے ہو نہ سکا
بس یہی وجہ تھی وہ دیر سے گھر آیا امید

25
دیکھ لینا ایک دن خونّ شہیداں کا کمال
کچھ دنوں کی بات ہے تجھ پر بھی آئے گا زوال
یہ فلک یونہی نہیں نا یہ زمیں ہے کھیل کُود
ٹوٹ جائے گی ہر اک شے جب کہے گا ذوالجلال
تیری میری میری تیری ایک دھوکہ اک فریب
میری تیری تیری میری کیا مثال و کیا مجال

0
27
اُس شیشے میں کچھ دِور جو اک شخص کھڑا ہے
وہ میرا ہی ہم شکل ہے پر مجھ سے جُدا ہے
کہتا ہے کہ یہ مُلک نہیں رہنے کے لائق
ہر موڑ پہ ہر چوک پہ دھوکہ ہے ریا ہے
رشوت بھی سرِ عام ہے ڈاکے بھی روزانہ
تھانے میں اگر جاؤ تو وہ تم سے خفا ہے

0
28
جُبّہ عمامہ پگڑیاں سب خوب ہیں مگر
جب وقت آ گیا تو کفن داغدار تھا
جب تک رہا زمین پہ پہچان نہ سکے
جب چل بسا تو واللہ دُرِ شاہ وار تھا
کیا جرم تھا یاں بے گُنہ لاشوں کے ڈھیر ہیں
جس لاش سے ہٹایا کفن شیر خوار تھا

0
40
کون غلطی پر تھا سوچیں گے کبھی
مَیں یا وہ جو جان میری تھے کبھی
وعدے کرنے میں بڑے فیّاض ہیں
ہاں مگر کرتے نہیں پُورے کبھی
بھُوک کیا ہے ان کو بابا کیا خبر
حُکمراں سوئے نہیں بھُوکے کبھی

0
28
نہ جانے اور کتنی زندگی ہے
دکھوں کی گرد چہروں پر جمی ہے
نہیں ہے اور کوئی بھی یہاں پر
فقط مَیں ہوں یا میری بے بسی ہے
کسی کو کیوں کہوں اپنی کہانی
سنے کوئی یہاں کس کو پڑی ہے

0
29
جانے کہاں وہ نظریں چُرا کر چلے گئے
وہ جن کے سر میں زعم تھا وہ سر چلے گئے
بزمِ طرب میں جن کی اداؤں کی دھوم تھی
شاید ادھر اُدھر ہوں بظاہر چلے گئے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
شورش کے بعد سارے مقرّر چلے گئے

0
28
رُخصت ہؤا تو دل کو پریشان کر گیا
ترکِ تعلّقات کا اعلان کر گیا
مضمر ہے تیرے شر میں بھی اک خیر بالیقیں
اس زاوئے سے زندگی آسان کر گیا
جو کام آج تک کوئی دشمن نہ کر سکا
وہ نَو مئی کو ٹیم کا کپتان کر گیا

0
2
51
عشق کی نظروں میں یارو حُسن بے توقیر ہے
جو بھی آنکھوں کو لبھا جائے وہ تیری ہیر ہے
کل تلک جس شہر کی سارے جہاں میں دھوم تھی
آج وہ ظالم کے پنجے میں پھنسا کشمیر ہے
بھُون ڈالے ان گنت معصوم طفلِ شیر خوار
اب غزہ میں طفل ہے نا خوار ہے نا شیر ہے

0
26
رات جتنی کالی ہو اتنی سحر نزدیک ہے
اور اگر کچھ فرق بھی ہے تو بہت باریک ہے
قومِ موسیٰ نے بنایا دو ارب کو یرغمال
حاملِ قرآن تیری اور کیا تضحیک ہے
آنے والا دور کیسا ہے خدا کو علم ہے
مَیں تو جو کچھ دیکھتا ہوں عالمِ تاریک ہے

0
37
نفرت ہے کبھی پیار کا اظہار ہے مجھ سے
دعویٰ ہے رقیبوں کا کہ بیزار ہے مجھ سے
بہتر ہے کہ اک بار ہی سب معاملے طے ہوں
ہر بزم میں وہ بر سرِ پیکار ہے مجھ سے
ہر ایک کے پہلو میں ہے ہر رنگ میں غلطاں
کیا طُرفہ تماشا کہ فقط عار ہے مجھ سے

0
32
مے کدے سے دوستی ہے مَے سے تجھ کو بَیر ہے
شیخ صاحب چھوڑئے کعبہ نہیں یہ دَیر ہے
بے سبب ابلیس کو کیوں کوستے رہتے ہیں لوگ
آج بھی ہر گھر میں ہے کس نے کہا وہ غیر ہے
ظلم و جبر و جَور پر بھی گنگ ہو منصف اگر
کیسے کہہ دوں مَیں کہ سب اچھّا ہے سب کچھ خیر ہے

0
29
وہ آئے بیٹھے ہیں تو کیا کروں مَیں
پڑوں پاؤں کہیں یا جا مروں مَیں
مسلسل چلتے چلتے تھک گیا ہوں
مگر وہ کہتے ہیں چلتا چلوں مَیں
زبانی سننا بھی توہین ہے تو
ہزاروں چٹھیاں کیسے پڑوں مَیں

0
28
عشق کی بیماریوں سے کچھ بھی تو حاصل نہیں
یہ وہ گُل ہے جس کی بنیادوں میں آب و گِل نہیں
واہ کیا زلفیں ہیں کیسا ناز و نخرہ رنگ و بُو
ہاں یہ سب کچھ ہے مگر گالوں پہ کوئی تِل نہیں
ان گنت دعوے ہیں زخمِ دِل کے سب اشعار میں
غور سے دیکھا تو کوئی ایک بھی بسمِل نہیں

0
21
کیا کیا کالج میں جا کر کیا ملا محنت کا پھل
کاش اس ڈگری کی بھی ہوتی کہیں تو آبرو
سب سے اچھّی خوبصورت ہے مری ارضِ وطن
رہنما سارق ہیں جھوٹے ہیں لٹیرے فتنہ جُو
تیری چاہت سے بھی بڑھکر اور مجھ کو کام ہیں
بھوک بیماری غریبی مفلسی بہتا لہو

0
28
کر دیا کنگال موروثی سیاست نے ہمیں
چند اوباشوں رذیلوں کی رفاقت نے ہمیں
جب تلک یہ ہم میں ہیں آگے نہ بڑھ پائیں گے ہم
ورنہ اس کنجِ قفس میں گھُٹ کے مر جائیں گے ہم
انتخاب ہونے سے پہلے تو حریفِ جان ہیں
بعد ازاں اک دوسرے کی آن بان اور شان ہیں

0
27
بچّے کی لاشِ خستہ سے جو پار تیر ہے
اب اس کا خاتمہ بھی بہت ناگزیر ہے
حیوانیت کے بھیس میں پیغمبروں کی نسل
لاشوں سے پیار ہے جسے خوں کی اسیر ہے
عیسیٰ کی قوم بے وجہ تخریب میں شریک
اسلام سے ہے دشمنی طبعاً شریر ہے

0
28
ایک کام لا جواب کرنا ہے
اپنا بھی احتساب کرنا ہے
شبِ دیجُور ختم کرنی ہے
رات کو ماہتاب کرنا ہے
ابُو ذر سے بھی علم لینا ہے
فقر کو بُو تراب کرنا ہے

0
31
سنو اے خالد و طارق غزہ تم کو بلاتا ہے
ستاون ملکوں کا ہم سے برائے نام ناطہ ہے
ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں نوچیں ہیں یاہو نے
ہمارے شیر خواروں پر فلک آنسو بہاتا ہے
اگر ہم رونا بھی چاہیں تو واللہ رو نہیں سکتے
کہ دل کے درد کو ان آنسوؤں سے دھو نہیں سکتے

0
26
رخصت ہوئے وہ جب تو بڑا اضطراب تھا
کوئی ہؤا ناکام کوئی کامیاب تھا
رندانِ بادہ خوار تھے مصروفِ میکدہ
کونے میں سب سے دُور اک عزّت مآب تھا
قسمت بُری ہے یا کوئی طرزِ منافرت
جب بھی وہاں گیا ہوں وہ پا بہ رکاب تھا

0
28
جب کسی کام کے انجام سے پچھتانا پڑا
کاش آغاز نہ کرتا یہی سمجھانا پڑا
جب کسی بات پہ اک دوست کو تکلیف ہوئی
جب بھی ملتا ہوں اسی بات پہ شرمانا پڑا
زندگی تجھ کو مرے ہاتھ سے کیا رنج ملا
تجھ سے مل کر بھی مجھے رات کو گھر جانا پڑا

0
32
مَیں نے جو لکھ دیا ہے ترے کام کا نہیں
مَیں نُور ہوں سحر کا تری شام کا نہیں
وہ پڑھ تری دیوار پہ کیا لکھ گیا کوئی
یہ وقت ہے کچھ کرنے کا الزام کا نہیں
منصب اگر ملا ہے تو اس کو عطا سمجھ
سب محترم ہیں کوئی بھی بے دام کا نہیں

0
27
بھُوک ہے بیماریاں ہیں رنج و غم آزار ہے
موت تو لازم ہے لیکن زندگی دشوار ہے
اس کے آنے سے مجھے حیرت ہوئی پھر بھی اے دل
جانے یہ اخبار کی سرخی ہے یا اخبار ہے
شیخ صاحب بھی سرِ میخانہ آ بیٹھے ہیں آج
بادہ نوشی کے مسائل پر کوئی تکرار ہے

0
36
‎جب بھی جاتا ہوں وہاں مجھکو نظر آتی ہے وہ
سر سے لے کر پاؤں تک دل میں اتر جاتی ہے وہ
شوخ رنگوں پر سنہری دھاریوں کا بانکپن
اودھے اودھے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
دُور ہریالی نے رنگ و نُور کو بالا کیا
دیکھنے والوں کو بھی دیوانہ و والہ کیا

0
38
تذکرہ یار کا سب کو نہ سنانا ہرگز
اپنی باتوں کو فسانہ نہ بنانا ہر گِز
قِصّے میخانوں کے میخانوں میں ہی دفن کرو
راز کی بات ہے باہر نہ بتانا ہر گِز
سب کی تصویر بنا لیتی ہے خود کار مشین
آج سے سوچ لو جوتے نہ چرانا ہر گز

0
28
خود ہی پیدا کر کے خود مروا رہا ہے غیر سے
طعنے سننے پڑرہے ہیں مندروں سے دَیر سے
ہر بنی آدم کو دکھ دینا انہیں محبوب ہے
شیر خواروں کا ذبیحہ اور بھی مرغوب ہے
ہر طرف لاشوں کا اک انبار ہے پروردگار
کوئی چاہے بھی تو کر سکتا نہیں ان کا شمار

0
26
بُری فطرت نہیں لیکن مَیں اچھّا بن نہیں پایا
جہاں تک دیکھ سکتا تھا ہر اک شے کو حسیں پایا
چلے آؤ کہ اب تو صرف چند سانسیں ہی باقی ہیں
وگرنہ پھر کہو گے ہائے اب زیرِ زمیں پایا
وہ جس کے حُکم سے ساری خدائی کانپ اُٹھتی تھی
اسے گوشہ نشیں دیکھا اسے عبرت نشیں پایا

0
49
تمیزِ لالہ و گُل کا تعلّق باغباں سے ہے
ترے افشائے غم کا راز تیرے رازداں سے ہے
کبھی ترکِ تعلّق کا فسانہ عام نہ کرنا
وگرنہ لوگ سمجھیں گے یہ شکوہ جانِ جاں سے ہے
ذرا ٹھہرو مجھے ان بھیک منگوں سے تو ملنے دو
مرا ماضی بھی وابستہ انہی کی داستاں سے ہے

0
29
شعر لکھنا چاہتا ہوں قافیہ ملتا نہیں
درد و آزاری تو ہے پر طربیہ ملتا نہیں
ایک عرصے بعد اپنے دیس میں آیا ہوں آج
حِصّے بخرے ہو گئے جغرافیہ ملتا نہیں
بارشیں ہونے لگی ہیں پھر بھی کتنا حبس ہے
اتنی ظلمت ہے کہ واللہ راستہ ملتا نہیں

0
35
دل کسی کو دوں تو میرے پاس کیا رہ جائے گا
سانس بند ہو جائے گی جگ دیکھتا رہ جائے گا
جوڑ کر رشتوں کو رکھنے سے مٹیں گے فاصلے
ورنہ منزل دُور ہوگی راستہ رہ جائے گا
‏‎نہ رہے گی یہ زمیں نہ آسماں کی وسعتیں
‏‎ختم ہو جائیں گے ہم سب تذکرہ رہ جائے گا

0
24
اک کسک ایسی بھی ہے جس کی دوا کوئی نہیں
بیکسوں کا اس جہاں میں ہم نوا کوئی نہیں
وہ پرانا ہو یا کوئی بھی نیا قانون ہو
اس کی زد میں ان غریبوں کے سوا کوئی نہیں
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور دیکھئے
سینکڑوں مرتے ہیں آدم پر دوا کوئی نہیں

0
34
کون غلطی پر تھا سوچیں گے کبھی
مَیں یا وہ جو جان میری تھے کبھی
وعدے کرنے میں بڑے فیّاض ہیں
ہاں مگر کرتے نہیں پُورے کبھی
بھُوک کیا ہے ان کو بابا کیا خبر
حُکمراں سوئے نہیں بھُوکے کبھی

0
25
تجھ کو پا کر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہؤا
چاند پھر چاند تھا اب کے بھی ستارہ نہ ہؤا
مَیں نے ہر بار جفاؤں کا صلہ پیار دیا
بحر کو بحر ہی رہنا تھا کنارہ نہ ہؤا
ان گنت سجدے کئے دامنِ دل چاک کیا
سختیاں بھوک کی جھیلیں پہ گزارا نہ ہؤا

0
26
آپ شیریں سُخن آپ غُنچہ دہن آپ لُطف و کرم آپ لعلِ یمن
سرورِ ملک و دیں جادۂ سالکیں مُخبرِ صادقیں غازۂ مومناں
آپ شانِ خدا آپ درسِ ہدیٰ آپ سب سے جدا شافعِ دوسرا
اے شہہِ انبیا یہ اُمیدِ گدا کب سے رہ میں کھڑا منتظر دید کا

0
55
شافعِ بحر و بر دافعِ ہر خطر ہو کرم کی نظر میرے احوال پر
راحتِ عاشقاں وجہِ کون و مکاں ہادئی کارواں رہروِ لا مکاں
آپ عفو و کرم آپ گنجِ نعم آپ شاہِ امم آبروئے قلم
خوہشِ دلبراں آرزوئے نہاں رہبرّ قدسیاں کوچۂ عاشقاں
آپ دُرّ ِ عرب آپ اُمّی لقب آپ فرمانِ ربّ نازشِ روز و شب
سطوتِ کُل جہاں عظمتِ این و آں لوحِ نقشِ جہاں بردۂ عاصیاں

0
42
کسی محفل میں جب وہ بے نقاب آیا تو کیا ہو گا
خزاں میں لالہ و گُل پر شباب آیا تو کیا ہو گا
ابھی کچھ وقت باقی ہے ذرا تیّاریاں کر لو
اگر محشر میں نا موزوں جواب آیا تو کیا ہو گا
کسی سے جھوٹے وعدے کرنا چارہ گر کی فطرت ہے
حقائق کو چھپانے کا سراب آیا تو کیا ہو گا

0
36
پہچان کر پہچاننے سے صاف پھر گئے
بربط کے تار ٹُوٹے تو نغمے بکھر گئے
غلطی سے ہاتھ لگ گئے زُلفِ دراز پر
چلئے اسی بہانے سے گیسو سنور گئے
کاٹی ہو جس نے زندگی روتے ہوئے یہاں
اس کی بلا سے بچّے اگر زر بہ زر گئے

41
کتنی غربت ہے کتنی عسرت ہے
کون دیکھے گا کس کو فرصت ہے
تازہ کچرے کے ڈھیر آئے ہیں
کتنے کھانے ہیں کتنی لذّت ہے
کھلی دعوت ہے بھیک منگوں کو
کھُلّا کھاؤ سبھی کو دعوت ہے

0
64
اس کے ہر ایک حرف میں بر جستہ تیر تھا
وارفتگی میں میرا عمل ناگزیر تھا
پیسے ادھار لے لئے اور صاف پھر گئے
کیسے بتاؤں مَیں کہ وہ فِدوی کا پیر تھا
تم تو بُرے نہیں ہو مگر غور تو کرو
جس نے بنایا مال وہ کس کا وزیر تھا

0
42
غلط ہے زندگانی لالہ رُخ کے تِل سے گزرے گی
اگر یہ سوچ نہ بدلی تو لا حاصل سے گزرے گی
مرا امروز ناواقف ہے اُلفت کے تقاضوں سے
یہ وہ لیلیٰ نہیں جو قیس کے محمل سے گزرے گی
ہوا کے دوش پر طوفان سے مت کھیلنا لوگو
اگر بپھرا گئی یہ موج تو ساحل سے گزرے گی

0
37
آنسُو آنکھوں میں دل میں چھالے ہیں
ہجر کے قافیے سنبھالے ہیں
میرے عصیاں تو سب سے مخفی تھے
میرے اک دوست نے اچھالے ہیں
اس کی ہمّت کو سب سلام کرو
جس نے دشمن بھی گھر میں پالے ہیں

0
46
وفورِ شوق میں مارے گئے ہیں
فقط ہم ہی نہیں سارے گئے ہیں
زمیں پر آدمیت سر بہ زانو
فلک پر چاند اور تارے گئے ہیں
بہت کم ہیں جو خوش تھے زندگی سے
کہ اکثر تو تھکے ہارے گئے ہیں

0
53
نہ دیتے گر معافی وہ تو دل رنجور ہو جاتا
یہی گھاؤ پھر آخر ایک دن ناسور ہو جاتا
اگر جنّت میں عورت کی بھی خواہش پوچھ لی جاتی
تو شاید مرد بیچارہ بھی کوئی حور ہو جاتا
اگر ان پر مری غربت کا پردہ چاک ہو جائے
تو جتنا پاس ہوں اس وقت اتنا دُور ہو جاتا

0
56
سُن لو مَیں آج اعتراف کرتا ہوں
سارے کہتے ہیں تُم پہ مرتا ہوں
لوگ کہتے ہیں سچ ہی کہتے ہیں
اس لئے ہی بنا سنورتا ہوں
یہ اداسی نہ ماں پہ ظاہر ہو
مَیں تو ہر روز ہی بکھرتا ہوں

0
41
اے مرے خدا مرے چارہ گر مرے چارہ گر
مرے غم کا کوئی علاج کر مرے چارہ گر
سب کی راتیں کالی ہیں دکھ نہیں کہ ازل سے تھیں
مرے دن بھی کالے ہیں غور کر مرے چارہ گر
سبھی رنج و غم تجھے علم ہے بے نفوس ہیں
مری جان پہ بنے معتبر مرے چارہ گر

0
73
دیکھ مرے دل میں ذرا آ کے کبھی دیکھ
ویسے نہ نظر آئے تو شرما کے کبھی دیکھ
مَیں عام زبانوں میں سمجھتا نہیں ہمدم
کہنا ہے اگر مجھ سے تو فرما کے کبھی دیکھ
حالات سمجھنے ہیں تو کافی نہیں ادراک
قرآن سے مایوسیاں ٹھُکرا کے کبھی دیکھ

0
64
روک لے بڑھتے قدم کو روک لے ظالم کا ہاتھ
ختم ہو گی چند قدموں پر تری زرّیں حیات
اس جہانِ فانی سے کوئی کبھی خوش نہ گیا
کوئی ایسا ہے تو آئے دے گواہی کائنات
سرورِ اقدس نہ رہ پائے تو کس کو ہے بقا
کتنا ہی روشن ہو دن آخر ضرور آئے گی رات

0
51
جو اب تیرا فسانہ ہے وہی میری کہانی تھی
تمہیں باتیں سنا کر شاعروں سے داد پانی تھی
نہیں عادت مجھے ہرگز گلوں شکووں کی اے دلبر
مرے ہم پیشہ کو اس آڑ میں اپنی سنانی تھی
نہیں ہر گز نہیں کس نے کہا وہ بد تمیزی تھی
جنہیں وہ گالیاں کہتے ہیں تیری گُل فشانی تھی

0
38
سر فروشی کیا ہے مجھ کو کاش سمجھائے کوئی
سر کٹانے کی تمنّا میں نہ مر جائے کوئی
ٹھوکریں کھا کھا کے اب آخر سنبھلنا آ گیا
کوئی چارہ گر نہیں ہے راہ بتلائے کوئی
تیرے حِصّے کا جنوں بھی مجھ کو ہی بخشا گیا
ان پری چہروں سے یارب کیوں نہ گھبرائے کوئی

0
2
77
اس مُلکِ پُر آشوب کا دستور کہاں ہے
سب ہمسرِ مُوسیٰ ہیں مگر طُور کہاں ہے
دعویٰ ہے کہ تُم عاشقِ جانباز ہو لیکن
غافل تری زنبیل میں منصور کہاں ہے
جس کے لئے مُلّا نے کئے سجدے ہزاروں
اب پُوچھتا پھرتا ہے مری حُور کہاں ہے

6
110
نہ خوشیوں پر تعجبّ ہے نہ کوئی غم ستاتا ہے
عمل کا خانہ خالی ہے یہ دُکھ پیہم ستاتا ہے
مرے آنے نہ آنے سے کسی کو فرق ہو تو کیوں
کہ اب تو تیرے نا آنے کا غم بھی کم ستاتا ہے
خزاں کے نام سے عاشق مزاجوں کو شکایت ہے
بچھڑنے والوں کو ذِکرِ گُل و شبنم ستاتا ہے

53
ہر جگہ ہے ایک ہی تکرار دوست
بِک گئے ہیں جُبّہ و دستار دوست
ایک بھی ابتک نہیں پُوری ہوئی
خواہشوں کے لگ گئے انبار دوست
سارے مسلم ہیں مہاجر بھی ہیں گو
لیکن اب کوئی نہیں انصار دوست

61
حالات نا گزیر سہی در بدر نہیں
کیا بیت گئی رات پہ دن کو خَبَر نہیں
کنجِ قفس میں رہ کے بھی شکوہ نہیں کیا
وہ تیرگی ہے با خدا جسکی سحَر نہیں
وہ اپنی بات کہتے ہیں تو مَیں کیوں چُپ رہوں
یا یوں سمجھ لوں میری آہیں بارور نہیں

0
47
کچھ عرصے سے راقم کے ہیں غم اور زیادہ
کہتا ہوں تو کرتے ہیں سِتَم اور زیادہ
آؤ کبھی بیمار کی کُٹیا میں بھی دیکھو
کس طور یہاں گُھٹتا ہے دم اور زیادہ
اس مُلک میں کیا حال ہے نادار کا مت پوچھ
لکھتے ہوئے روتا ہے قَلَم اور زیادہ

0
58
آنکھ سے دیکھ کے بھی دل سے بہت دُور رہا
مَیں تو معذور تھا وہ مجھ سے بھی معذور رہا
کسی کو دیکھ کر یکدم وہیں پہ رُک جانا
سرِ محفل یہ تماشا بڑا مشہور رہا
نا کلیم اُللہ ہے اب وہ اور نہ موسیٰ کہیں
طُور جو طُور تھا وہ آج بھی کوہ طُور رہا

0
66
غور سے سُن لیں خدارا کیا کہا منظور نے
ان میں اکثر وہ ہیں جن کا حق دیا دستور نے
آج تک جن لوگوں کو آ کر گھروں سے دھر لیا
ان کے حفظ و امن کا وعدہ کیا منشور نے
کام کرتے مر گئے کانوں میں جو مزدور وہ
ان کے زندہ رہنے کا چھینا ہے حق مغرور نے

0
52
اگر وہ چھوڑ گیا ہے تو اس کا غم نہ کر
ذرا ذی عزم بن اپنا وقار کم نہ کر
ہوا کے دوش پر جو منزلوں کی اور گئے
ٹھہر کے دیکھ اُن کی پھرتیاں رقم نہ کر
نہیں ہے حرص و آز کی ذرا طلب مجھ کو
خدا کے واسطے یہ دعویٰ اے صنم نہ کر

38
عجب مضمون ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا
اگر وہ بات نہ کرتے تو خوابوں پر یقیں آتا
مجھے کیا علم تھا کہ وہ بھی آ بیٹھے ہیں محفل میں
وگرنہ عذر کر لیتا یا پھر خلوت نشیں آتا
چلو اچھا ہؤا دل کی زباں پر آ گئی آخر
اگر وہ آج نہ کہتے یہ مضموں بعد ازیں آتا

44
بھرے بیٹھے ہیں اب واپس بلا لے
کہ دل کو پڑ گئے ہیں جاں کے لالے
دلِ مہجور کو ہجرت کا غم ہے
سنبھل سکتا نہیں ہے دل سنبھالے
ضرورت پڑ رہی ہے دشمنوں کی
بچا لے کوئی اپنوں سے بچا لے

0
75
وہ آئے بیٹھے ہیں تو کیا کروں مَیں
پڑوں پاؤں کہیں پر جا مروں مَیں
مسلسل چلتے چلتے تھک گیا ہوں
مگر وہ کہتے ہیں چلتا چلوں مَیں
زبانی سننا بھی توہین ہے تو
ہزاروں چٹھیاں کیسے پڑھوں مَیں

0
44
دیکھ کر مجھ کو وہ پہچان نہیں پایا امید
اس کی دانست میں شاید تھا مرا سایہ امید
اس کی آمد پہ سبھی ارض و سما جھوم اٹھے
چاند تاروں نے کہا دیکھ لو کون آیا امید
بندوبست آج بھی فیسوں کے لئے ہو نہ سکا
بس یہی وجہ تھی وہ دیر سے گھر آیا امید

0
42
سو گئے دیوار و در سارا جہاں سوتا رہا
آدمی کی بے بسی پر آسماں سوتا رہا
کون ہے تیرا یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں
تُو جو زندہ ہے تو کیا تیرا نشاں سوتا رہا
لوگ رہتے ہیں زمیں پر بستیاں آباد ہیں
لُٹ گیا آدم بچارا پاسباں سوتا رہا

0
59
کبھی حرم تو کبھی دَیر پے مچلتا ہے
مرا مزاج نئی کروٹیں بدلتا ہے
حقیر جان کے مجھ پر نگاہِ غیظ نہ ڈال
مَیں وہ دیا ہوں جو طوفان میں بھی جلتا ہے
مرے وطن میں ہر اک شخص پارسا ہے مگر
مرا وجود کیوں ہر آدمی کو کھلتا ہے

0
58
ضروری تو نہیں تم جو کہو وہ حرفِ آخر ہو
ذرا سی شکل ہے تو کیا نہ مسجد ہو نہ مندر ہو
اگر کافر ادائیں ہیں تو اک مسلم کو ان سے کیا
جو چاہو ڈھونڈ لو ایسا جو ان سے بڑھ کے کافر ہو
ادب آداب سمجھانے سے اس کو کچھ نہیں حاصل
جسے آدابِ مجلس کا خصوصی درس ازبر ہو

0
52
سُود کی لعنت نے چھینا ہے زمانے کا سکوں
ہر کوئی ناشاد ہے ہر شخص ہے خوار و زبوں
ارتکازِ مال و زر ہے کھیل دولت مند کا
باقی سارے بھیڑ بکری کی طرح ہیں سر نگوں
زادِ راہ کی معنویت ہے کہہ و مہ پر عیاں
مَیں اگر چاہوں بھی تو کیوں کر کہوں کیسے لکھوں

0
36
روٹھ جاتی ہو تو کچھ اور حسیں لگتی ہو
شکن آتی نہیں جس پر وہ جبیں لگتی ہو
مَیں نے ہر گام پہ اخلاص و وفا وار دئے
تم بھی ہر موڑ پہ پتھّر کی زمیں لگتی ہو
میرے رستے میں منازل پہ منازل آئیں
میرا وجدان ہے تم اب بھی وہیں لگتی ہو

0
57
رُخصت ہؤا تو دل کو پریشان کر گیا
ترکِ تعلّقات کا اعلان کر گیا
مضمر ہے تیرے شر میں بھی اک خیر بالیقیں
اس زاوئے سے زندگی آسان کر گیا
جو کام آج تک کوئی دشمن نہ کر سکا
وہ نَو مئی کو ٹیم کا کپتان کر گیا

0
64
غزل لکھوں تو لکھوں اپنے جانِ من کے لئے
زہے نصیب اگر تاب ہو سُخن کے لئے
عجیب طُرفہ تماشا ہے سارے بیٹھے ہیں
وطن فروش بھی آئے ہیں اب وطن کے لئے
ہجوم یونہی نہیں ہے شراب خانے میں
دوا ضروری ہے انسان کی تھکن کے لئے

0
57
جہاں تک کام کرتی ہیں نگائیں تیرہ بختی ہے
غریبی رقص کرتی ہے مصیبت ساتھ چلتی ہے
کسی کا پیٹ ننگا ہے کسی کے پاؤں ننگے ہیں
یہاں پر ہر کوئی ننگا ہے یہ ننگوں کی بستی ہے
اُدھر حوّا کی بیٹی سیٹھ کے پہلو میں لیٹی ہے
ضرورت جبر کرتی ہے حیا آنسو بہاتی ہے

0
59
کبھی کبھی مَیں یہ سوچتا ہوں جو مَیں نہ ہوں گاتو کیا کروگے
کتابِ دل پر جو لکھ لئے ہیں وہ سارے خا نے سیاہ کرو گے
جو ظلم کرنے ہیں کر لو بے شک کہ اب تو محفل کی جاں تمہی ہو
جواب دینا پڑے گا جس دم تو دیکھ لینا حیا کرو گے
ترا تجمّل تری ادائیں دراز زلفیں حسین چہرہ
خدارا چھوڑو یہ نقشے بازی اُسے چڑھا کر خدا کروگے

0
92
مر گئی کیونکہ دوائی کے لئے پیسے نہ تھے
اللہ بھی راضی نہیں دامن میں کچھ سجدے نہ تھے
کر لیا ترکِ تعلقّ تا کہ وہ راضی رہیں
آج بھی دل ہے وہیں کہ اس پہ تو پہرے نہ تھے
پھر رہے ہیں ہاتھ میں خیرات کے برتن لئے
دے دو کچھ راہِ خدا کہتے ہوئے ڈرتے نہ تھے

0
62
سوچا تھا کچھ اور پہ لکھتا ہے قَلَم اور
ہم خاک نشینوں پے ہوئے ظلم و ستم اور
منزل کی تمنا تھی مگر رستے ہیں اوجھل
رکھتے ہیں کہیں اور تو پڑتے ہیں قدم اور
اک خواب کی خواہش ہے مگر جاگتی آنکھوں
رہنے کے لئے گھر نہیں گھُٹنے کو ہے دم اور

0
60
شعلہ ہوں اگر مَیں تو بجھا کیوں نہیں دیتے
مِٹّی ہوں تو پھر اسمیں دبا کیوں نہیں دیتے
ہر چوک پہ ہر شہر میں آزاد ہیں قاتل
عادل ہو اگر تم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رکھّا ہے کسی کونے میں دشمن کے لئے جو
اک بار وہ بم ہم پہ چلا کیوں نہیں دیتے

0
69
تمہیں دیکھا تھا جب وہ دن مجھے بھُولا نہیں اب تک
کہاں گزرا ہے یہ عرصہ نہیں آتا یقیں ابتک
بہت ڈھونڈا یہاں اپنے لئے کچھ بھی نہیں پایا
وہی ہے آسماں تیرا وہی تیری زمیں اب تک
کوئی کالی کلوٹی ہو یا کوئی آنکھ سے فارغ
وہ اس دیوالیہ پن میں بھی ہے زہرہ جبیں اب تک

0
57
زلف لہرانے تبسّم ریز افسانے کا نام
عشق کیا ہے خود تڑپنا اور تڑپانے کا نام
ماسوا اُن کی گلی کے اور کچھ آتا نہیں
باوجود اس کے مسلسل جھڑکیاں کھانے کا نام
زاہدِ قبلہ تو جیسا چاہیں فرماتے رہیں
روشنی اصلاً ہے ان کے بام پر آنے کا نام

0
64
چوٹ ظاہر ہو نہ ہو پر چہرہ تو غمّاز ہے
درد ہے شاید کہیں یا طبع کچھ ناساز ہے
سوچتا ہوں اور کچھ ہوتا ہے لیکن مختلف
کیا کوئی میرے ارادوں میں خلل انداز ہے
تیر مارا تھا کسے اور ہو گیا کوئی شکار
جاؤ بتلاؤ کہ وہ کچّا نشانے باز ہے

0
38
ہر سانس کہہ رہی ہے کہ توبہ ہزار کر
کر لے جو وہ قبول اسے اختیار کر
دامن کو جھاڑ کر نئی منزل کی راہ لے
سب وسوسے بھلا کے دل و جاں نثار کر
مجھ کو نہیں ہے کوئی شکایت زمانے سے
مجھ کو ہے اعتبار تُو بھی اعتبار کر

0
46
اگر تم چھوڑ جاؤ گے تو کیا مَیں مر ہی جاؤں گی
نہیں مَیں زندہ ہوں اور زندگی کے گیت گاؤں گی
یہ تم پہلے نہیں ہو بے وفا لوگوں کی منڈی میں
جو مَیں اپنے رقیبوں سے کبھی آنکھیں چراؤں گی
مُحبّت پیار الفت وعدے قسمیں سب فسانے ہیں
مَیں اب ایسے فسانوں پر نئے پہرے بٹھاؤں گی

0
61
آٹے کو لے کے مر گیا آٹا نہیں ملا
مِٹیّ کا پیٹ بھر گیا آٹا نہیں ملا
پاؤں پہ چل کے آیا تھا اک ماں کا لاڈلا
میّت کی شکل گھر گیا آٹا نہیں ملا
لعنت ہزار تم پہ اے آٹے کے تاجرو
اک اور گھر اُجڑ گیا آٹا نہیں ملا

0
43
زندگانی کا سفر اب مختصر ہونے کو ہے
یوں گماں ہوتا ہے سب زیروزبر ہونے کو ہے
یہ بہاریں یہ فضائیں یہ زمین و آسماں
ایک دن تو یہ سبھی کچھ بے سحر ہونے کو ہے
وہ گناہ جو آج تک سب پردۂ اخفا میں تھے
آج وہ غائب بھی سب پر مشتہر ہونے کو ہے

64
ایک دن کے روزے سے وہ لوگ گھبرائیں گے کیا
عُمر بھر جو پیٹ پر پتھّر لئے پھرتے رہے
ایک مَیں ہی تو نہیں اس دیس کے اکثر نحیف
ٹھوکریں کھا کر اُٹھے اور اُٹھ کے پھرگرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک استفسار ہے سب مفتیانِ دین سے

57
دل خوش ہؤا ہے ان سے ملاقات ہو گئی
گو تھوڑی دیر ہی سہی پر بات ہو گئی
کہنے لگے کیا حال ہے کچھ بات کیجئے
جب حالِ دل سنایا وہیں رات ہو گئی
کل رات کو ہی چھت کی مرمّت کرائی تھی
اب پھر غریب خانے پہ برسات ہو گئی

0
62
جس کا ہر سجدہ درِ یار پہ ناکام رہا
جا نماز اس کے لئے کاہے کا انعام رہا
عمر جیسی بھی کٹی پردۂ اخفا میں کٹی
اب تو واللہ یہ تماشا بھی سرِ عام رہا
جب کوئی پوچھتا ہے قِصّۂ انجامِ وفا
صاف کہہ دیتا ہوں ہر کام میں ناکام رہا

1
71
اس جیون سے وہ کیا سیکھے جو سیکھتے سیکھتے خاک ہؤا
دُکھ سہتے صدیاں بیت گئیں اب رات کا دامن چاک ہؤا
ہر رات تو کالی تھی ہی مگر ہر صبح بھی یاں بے نُور رہی
کیا عمر مہینے گھڑیاں برس ہر لمحہ ہی عبرتناک ہؤا
جب ایک فلک تھا تب بھی سارے رنج و اَلَم ہمراہ رہے
اب دیکئے کیا بیتے گی وہاں جب تہہ در تہہ افلاک ہؤا

83
ایسی تقدیس ہے رشتوں کے پیار میں
جیت ہی جیت ہے جس کی ہر ہار میں
جب گلے مِل گئے رُوح لرزا گئی
سب فِرِستادہ حاضر تھے دربار میں
آج احساسِ عقل و خرد مِٹ گئے
بجلیاں بھر گئیں دل کے ہر تار میں

0
134
آؤ اے دوست پھر بہم ہو جائیں
شاید کچھ دوریاں ہی کم ہو جائیں
ناراضیوں پر مکالمہ ممکن ہے
گر تُم اور مَیں پھر سے ہم ہو جائیں
کتنے ہی گھر اُجڑتے دیکھے ہیں
دونوں آپس میں جب اہم ہو جائیں

0
73
یہاں انصاف بِکتا ہے یہاں قانون بکتا ہے
یہاں زندہ بھی بکتا ہے یہاں مدفون بکتا ہے
یہاں ہر رات لاکھوں عورتیں نیلام ہوتی ہیں
یہ وہ دھندا ہے جو ہر چوک پر پرچون بکتا ہے
یہ ایسا دیس ہے لوگو جہاں ہر کام جائز ہے
یہاں سب سے بڑا ڈاکو بڑے منصب پہ فائز ہے

3
128
فون کیا تھا خواب کی تعبیر تھی
ماضی کی یادیں نہیں شمشیر تھی
جو حقیقت تھی فسانہ بن گئی
ہر کہانی پاؤں کی زنجیر تھی
روز ملتے تھے کبھی لڑتے بھی تھے
اگلے دن پھر ملنے کی تدبیر تھی

1
62
آسودگی نے فقر کو بد مست کر دیا
دنیا کی عیش کوشی نے دو لخت کر دیا
کچھ گردشِ حالات تھی کچھ اُن کی بے رُخی
مجھ ایسے خوش مزاج کو بھی سخت کر دیا
کیا سوچنا کہ کل کلاں انجام کیسا ہو
جب وقت آیا فیصلہ یک لخت کر دیا

52
رُکھّ نئیں جھُکدے ہر ویلے بندے نوں جھُکنا پیندا اے
اے گل مَیں کلّا نئیں کہندا سارا جگ ای کہندا اے
مُلّا وِچ نمازے کھلیا پر مونہہ کیتا سُو کَیں ولّے
جھلیا کسے نوں دس پُچھ لیندوں کِس پاسے ول لہندا اے
جیون جیون مرنا ایں تے مریاں وی گل مُکنی ناہیں
ایس نکمّے پیٹ دے پچھِے کنّے ترلے لیندا اے

81
بیچ کر ہاتھوں کے کنگن خوشنما لگنے لگی
آندھیوں میں بھی جو جلتا ہے دیا لگنے لگی
دیکھ کر اس کا سراپا مَیں وہیں غش کھا گیا
ماں کے گھر رانی تھی بیٹی اب گدا لگنے لگی
عمر بھر جس کے لئے بس دلہنیں سجھتی رہیں
آج جب بیٹی نظر آئی حیا لگنے لگی

3
74
روکنا مقصود ہے تو اپنی خواہشات روک
جو کسی کا دل دُکھا دے چھوڑ ایسی بات روک
اپنی قسمت سے گلہ ہر وقت کرنے کا نہیں
آنسوؤں پر بس نہیں پر آنکھ کی برسات روک
اس کے وعدوں پر نہ ہرگِز زندگی ترتیب دے
اپنے رستے آپ پیدا کر کے کالی رات روک

71
اللہ مرے آلام کی تاثیر بدل دے
ہر تیرہ شبی والے کی تقدیر بدل دے
اک خواب ہی دیکھا تھا کوئی جُرم نہیں تھا
اس خوابِ زبوں حال کی تعبیر بدل دے
مجبور ہیں مقہور ہیں کشمیر کے باسی
اس خِطّۂ مظلوم کی تصویر بدل دے

84
زیست کا انتخاب کون کرے
اپنی قسمت خراب کون کرے
تیری زلفوں کے جال میں پھنس کر
فکرِ یومِ حساب کون کرے
جس جگہ ہر کوئی لُٹیرا ہو
اس جگہ احتساب کون کرے

0
74
پھر وہی طعنے وہی شکوے وہی آہ و بکا
کاش کہ اس کے علاوہ بھی تمہیں کچھ سُوجھتا
مَیں بھی دیکھوں شکل اپنی تم بھی دیکھو غور سے
پھر کسی ثالث سے کہہ دیں گے سنائے فیصلہ
جانے ان زہرہ جمالوں کو ہے اتنا وہم کیوں
کوئی بھی ان کے برابر کا نہیں ہے دوسرا

0
89
وہ رہ گِزر ہے دل کی کہ منزل نہیں کہیں
یہ بحر ہے وہ بحر کہ ساحل نہیں کہیں
آدم کے حرص و آز نے جنگل بنا دیا
بستی بھری پُری ہے پہ ہلچل نہیں کہیں
انصاف قتل ہوتا ہے مُنصف کے رُو برو
عادل ترے نظام سا باطل نہیں کہیں

0
69
بیکار ہے اب شکوۂ اہلِ بتاں امید
رکھّا ہے جہاں تیر وہیں پر کماں امید
مسجد کلیسا مندر و کعبہ اداس ہیں
گریہ کناں ہو صبح تو کیسی اذاں امید
امروز حالِ فردا پہ مایوس و مضطرب
ماضی بھی محض قِصّۂ عشقِ نہاں امید

0
73
وہ منزلیں اپنی پا بھی گئے ہم راہ میں دست بہ داماں ہیں
نے جوش و جنوں نے عقل و خرد کس پستئی فکر کا ساماں ہیں
موجوں کے تھپیڑوں کو چھوڑو کچھ ساحل پر بھی ڈوب گئے
کچھ اہلِ جنوں کچھ دِل والے ہر حال میں خنداں و رقصاں ہیں
کیوں ایسی راہ پہ چل نکلے جس راہ پہ سنگِ مِیل نہ تھے
منزل کے نشاں معدوم ہوئے اب ہر بن خارِ مغیلاں ہیں

0
92
ہر شعر پہ اے دوست مکرّر نہ کہا کر
جب کہہ دیا اک بار تو اک بار سنا کر
ہر بات کی تشہیر مناسب نہیں ہوتی
ہر بات کے مضموں کو نیا فہم عطا کر
ہو جاتی ہیں انجانے میں ہمدم جو خطائیں
وہ رات کو یاد آئیں تو انگلی پہ گنا کر

0
99
وہ جس نے میری راہ میں کانٹے بچھا دئے
مَیں نے قدم قدم پہ واں سجدے سجا دئے
میرے اور ان کے بیچ نہ تھی ایسی کوئی بات
لوگوں نے کینہ پروری سے پَر لگا دئے
جس بیوہ نے بتائی ہو فاقوں میں زندگی
اس کی بلا سے بچّوں کو ارض و سما دئے

68
سیلاب کے بعد بچ رہنے والا بوڑھا باپ
مَیں اپنی دعاؤں کا اثر ڈھونڈ رہا ہوں
تاریک اندھیروں میں سحر ڈھونڈ رہا ہوں
سیلاب نہیں ایک قیامت تھی جو گزری
اس موڑ پہ اک گھر تھا وہ گھر ڈھونڈ رہا ہوں
امداد کے لالچ میں جواں لاشوں کو نوچا

0
43
افسردہ ہو غمگین ہو کس سوچ میں گُم ہو
مَیں ساتھ ہی بیٹھا ہوں مرے ساتھ ہی تُم ہو
فرقت پہ تو ناراض تھے اب ملنے پہ ناراض
اب تک نہ سمجھ پایا صنم کیسے صنم ہو
ہے جلبِ زر و مال کا ہر بندہ پجاری
گفتار کا غازی ہو کہ قاضی کا قلم ہو

0
81
مَیں ٹھیک ہوں تو وہ بھی مہ پارہ نہیں نوید
تھوڑا فسانہ گو سہی سارا نہیں نوید
دعویٰ تھا کل تلک کہ رہِ یار کے عوض
منزل بھی کوئی مجھ کو گوارا نہیں نوید
جاہ و حشم بھی گردشِ لیل و نہار ہے
اس پر کسی بشر کا اجارہ نہیں نوید

0
104
رسوائیوں کا ڈر ہے تو مونہہ میں زبان رکھ
ہر جا ترے رقیب ہیں واللہ دھیان رکھ
ہر چوک پر فسانۂ رنج و الم نہ چھیڑ
اُس کی نہیں تو اپنی ہی کچھ آن بان رکھ
پردہ ہو جس سے فاش کسی کا وہ سچ ہی کیا
ہر ایک لب پہ ایک نئی داستان رکھ

0
100
قلب کی گہرائیوں میں بھی کہاں امکان تھے
دوریاں اُن سے ہوئی ہیں جو عزیزِ جان تھے
ٹھوکریں کھا کر سمجھ آئی کہ سچ کہتے تھے وہ
جو گناہ پر ٹوکتے تھے پر ہمیں نادان تھے
کر لیا ترکِ جہاں جن کے لئے اے اہلِ دِل
کچھ تو سوچو وہ بھی تو مِٹّی کے ہی انسان تھے

0
124
دیکھ کر میرا سراپا پھیر لی ایسے نظر
کوٹھیوں کے بیچ ہو جیسےکسی مفلس کا گھر
جانتا تھا مَیں کہ اس کی سلطنت کو ہے زوال
پر کبھی سوچا نہ تھا مارا پھرے گا در بدر
ہر کہہ و مہہ پر تغیّر ہے یقیناً بالیقیں
پر غریبوں کے نصیبوں میں وہی شام و سحر

0
126
لُٹ گئے سر و سمن صیّاد نے دھوکہ دیا
ہم دعا کرتے رہے فریاد نے دھوکہ دیا
ہو گئے بدمعاش پھر قابض فصیلِ شہر پر
آج کے فرعون نے شدّاد نے دھوکہ دیا
چھوڑ کر تیری کمیں گاہ دشمنوں سے جا ملے
ایک دو کی خیر ہے افراد نے دھوکہ دیا

0
115
گزارشِ احوال
معاشرے اور تہذیب وتمدّن کے بنانے سنوارنے میں جہاں سیاسی اور عمرانی زعما کا حصّہ رہا ہے وہاں کسی بھی معاشرے کی ترقّی و ترویج میں شعرا،نثّار اور ادبا نے بھی علم کی چاشنی کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و خیالات سے نہ صرف قوموں اور ملکوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنے موقلم سے زمانے کو لطیف جذبات سے نوازا بھی اور جہاں اسکی اقدار ناپید ہوئیں وہاں اسکی نیو بھی رکھّی اور پھر اسے پروان بھی چڑھایا بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب بھی دنیا میں معاشی اور معاشرتی اونچ نیچ اپنی انتہا کو پہنچ گیا (یوں تو یہ تفریق ہمیشہ رہی ہے)تو یہی وہ لوگ تھے جو اپنی کم مائیگی اور بے سروسامانی کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور بسا اوقات ایسا ہؤا ہے کہ ایک فرد یعنی محض ایک آدمی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا مگر یہ سب کچھ آناً فاناً یا پلک جھپکنے میں نہیں ہو گیا بلکہ اسکے لئے انہوں نے بھی اور انکے رفقا نے بھی وہ وہ مصائب برداشت کئے کہ آج ان کا تذکرہ بھی محال لگتا ہے اور ایسا بھی ہؤا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی زندگی میں اپنی تگ و دو آگے بڑھتی نظر نہ آئی مگر اسکے باوجود وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور پھر دنیا نے انکے جانے کے بعد انکی کاوشوں کو یوں سراہا کہ آج اگر ہم کسی بڑے آدمی کی سوانح عمری پڑھتے ہیں تو اکثریت ان لوگوں کی ملے گی جنہیں ان کی موت کے کافی عرصے بعد posthumously ایوارڈز اور بڑے بڑے تمغوں سے نوازا گیا جیسے مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا اور فیض احمد فیض اور سر اقبال رح رابندر ناتھ ٹیگور مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مودودی رح وغیرہ وغیرہ اور ان سارے مشاہیر میں اکثریت صاحبِ علم و قلم کی ہے گویا قلم وہ طاقت ہے جس نے بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیں اور اپنے زورِ قَلَم پر مروجّہ فرسودگی کے رُخ موڑ دئے
میری اس ساری تمہید کا اصل مقصد یہ ہے کہ آج بھی معاشی اور معاشرتیّ اور امیر غریب کی خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی اس طوفانِ بد تمیزی کو روک نہیں سکتا بلکہ روکنا چاہتا نہیں کیونکہ اہلِ قلم،گستاخی معاف، اپنی ذِمّے داریاں پوری نہیں کر رہے مگر آپ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں سبھی کی نفی کر رہا ہوں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے مگر یہ کہ بہت تھوڑے مشاہیر ایسے ہیں جنہوں نے علمِ بغاوت بلند کیا مگر بہت تھوڑے بھی ہیں اور مذکورہ خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی نہ ہونے کے برابر
ابھی کچھ دن پیشتر میری لاہور کے ایک نمائندہ شاعر سے بات ہوئی تو مَیں نے انہیں دوستانہ انداز میں یاد کرایا کہ آپ کی شاعری کو کافی لوگ پڑھتے ہیں تو آپ اپنی غزلوں میں معاشی اونچ نیچ کا ذکر کیوں نہیں کرتے تو کہنے لگے کہ یہ مسائل غزل کی حدود میں نہیں آتے بلکہ کہا کہ مَیں غزل کو غزل ہی رکھنے کے حق میں ہوں کیونکہ اگر اسمیں دوسرے مسائل کا ذکر کیا گیا تو اسکی ہیئت بھی بدل جائے گی اور غزل کے
ساتھ ظُلم بھی ہو گا تو معاً میرے دل میں خیال آیا کہ جو پوری نسلِ انسانی پر ظلم ہو رہا ہے اس کا کوئی آپ کو غم نہیں
احمد فراز مرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ :

0
44
کتاب نام : صرف چشمِ تر نہیں
مصنّف : امید محی الدّین خواجہ
khawajaumeed@gmail.com
موبائل/واٹس اپ : 622905498 0031
ایڈریس : castor 2 3902 sh Veenendaal NL

0
110
سکوتِ شہر سے مجھ کو گماں ہوتا ہے محشر کا
ادھر مسجد شکستہ ہے اُدھر مینارہ مندر کا
مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں لاینحل مسائل پر
وہی انسان احسن ہے وہی باغی مصوّر کا
لطافت ہو گئی ناپید رشتوں کے تقدّس سے
زباں کی تلخیاں ایسی گماں ہوتا ہے خنجر کا

0
120
آنسوؤں کا کام ہے رونا تو رونے دو انہیں
تھک کے رک جائیں گے داغِ دل تو دھونے دو انہیں
ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو عمر بھر سوئے نہیں
اب خدا کے واسطے قبروں میں سونے دو انہیں
توڑ دی رشتوں کی مالا سب رقیبوں نے تو کیا
وہ جو کچھ ہمدرد ہیں مِل کر پرونے دو انہیں

0
249
مجھ کو خموشیوں کا بڑا مشورہ دیا
اور آپ اپنے راز سے پردہ اُٹھا دیا
کوئی نہیں وہ اور بس ربِّ قدیر ہے
اُس کو گرایا اِس کو پکڑ کر اُٹھا دیا
جس کی اساس پانی کی اک بُوند ہے اسے
لوگوں نے مکر و فن سے سروں پر بٹھا دیا

7
187
عارضے بڑھتے گئے اور نیند کم ہونے لگی
دیکھ کر اپنا سراپا آنکھ نم ہونے لگی
جن اجالوں پر بنی آدم کو تھا فخرو غرور
وہ ضیائے نور تاریکی میں ضم ہونے لگی
مَیں نے دلبر کی نہ تھی تیری شکایت حشر میں
میری حالت سے کہانی خود رقم ہونے لگی

0
111
تَوسنِ فکر پہ مہمیزِ سخن آیا نہیں
تُو ہے وہ چاند کبھی جس پہ گہن آیا نہیں
آندھیاں آڑ بنیں راستے دیوار ہوئے
عزم ایسا کہ کبھی رنج و محن آیا نہیں
دولت و حشمت و ثروت سے رہا بالا مقام
تیرے رستوں میں کبھی لعلِ یمن آیا نہیں

0
120
اُس نے بھُلا کے مجھ پہ یہ احسان کر دیا
سفرِ حیات کو بہت آسان کر دیا
لگتی رہیں ہر ایک سے خوش گپیاں مگر
دیکھا مجھے تو جان کر انجان کر دیا
کوٹھی بنائی کہنے لگے آپ کے لئے
پھر مجھ کو واں پہ حاجب و دربان کر دیا

2
106
بند کمرے میں چلی آئی مَیں کچھ نہ کہہ سکا
مَوت آ پہنچی تو ہر تدبیر نے دھوکہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے کی جان کے لئے ماں بھینٹ چڑھ گئی
آنکھوں کی شرم رنگِ حنا کچھ نہیں بچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0
101
تم نے بھلا دیا تو کیا سارا جہان ہے
تیری زمین ہے نہ ترا آسمان ہے
جو چوٹ تیرے ہجر میں کھائی تھی یاد ہے
تم کو نظر نہ آئے گی دل پر نشان ہے
جو پیڑ سایہ دار تھا وہ خشک ہو گیا
مجھ کو جنون تھا وہ مرا سائبان ہے

0
1
136
نائبِ یزداں ہوں لیکن کیا کہوں
ہو چُکا ناپید واللہ سب سکوں
ظلم و استبداد کا عالم کہ اب
فطرتِ آدم ہوئی خوار و زبوں
بیچتے ہیں لوگ اپنی بیٹیاں
پیٹ میں روٹی ہے نا جسموں میں خوں

0
101
تھوڑا انصاف کرو غلطیاں معاف کرو
پہلے بھی کرتے رہے آج بھی الطاف کرو
مَیں بھی دنیا میں ہوں دنیا کے رواجوں کی طرح
زخمِ بھی تُم نے دئے ہیں تو تمہی صاف کرو
لُوٹ کر قوم و وطن ڈھیر لگائے زر کے
باپ کا مال ہے دل کھول کے اسراف کرو

0
134
جو آج ہے آواز وہ شاید نہ سنوں پھر
اور اپنی بھی آواز کو پہنچا نہ سکوں پھر
اک بار ہی سننے کی سزا جھیل رہے ہیں
اک بار اگر اور کہا کُن فیکوں پھر
سپنے میں انہیں دیکھ کے گھبرا سا گیا مَیں
گر سامنے آ جاتے تو کیا کرتا جنوں پھر

0
94
چھوڑا ہے جس نے راستے میں اس کا کیا قصور
میرے نصیب میں ہی ازل سے رہا فتور
یہ اشتہا ہی تھی تجھے سر پر بٹھا لیا
ورنہ تو سچ یہی ہے تُم بھی نا پری نا حُور
مشہور ہو گئے ہو تو مُوسیٰ کو دو دعا
ورنہ کوئی نہ جانتا تجھ کو اے کوہِ طُور

0
156
اللہ کا کرم ہے تری محنت کا صِلہ ہے
بھارت کے تکبّر کا جگر چیر دیا ہے
اک دن تجھے بابر نے ہی مغلوب کیا تھا
اب بابر اعظم کا مزہ چکھ ہی لیا ہے
چھ سات کی میدان سے ہی چھُٹیّ کرائی
جو شیر تھا میدان میں بھی شیر رہا ہے

0
85
مرے بچّے مرے دل کے ارادے جان لیتے ہیں
مَیں دن کو رات کہہ دوں رات کو دن مان لیتے ہیں
انوکھا راج ہے تیرا نرالی سلطنت تیری
ترے چمچے ہر اک مسلم پہ خنجر تان لیتے ہیں
کسی سے مانگنے سے عزّت و توقیر گھٹتی ہے
بہت کم ہیں جو دانستہ کوئی احسان لیتے ہیں

0
94
لکھ رہے ہو کب سے لیکن کیا ہؤا حاصل امید
راستے مسدود ہوں تو پھر کہاں منزل امید
وہم لگتا ہے کہ ہم سارے بنی آدم ہیں دوست
گلستاں ویران ہے اب رہ گئے جنگل امید
چاک کر ڈالی نَفَس نے نسلِ آدم کی قبا
پھنس گئے گرداب میں اور دُور ہے ساحل امید

0
232
جس نے دیکھا تجھے وہ فنا ہو گیا
حُسن والوں کا صدقہ ادا ہو گیا
مجھ کو ہر گام پر سجدے کرنے پڑے
کیا کریں جب زمانہ خدا ہو گیا
بیٹا کہتے ہوئے جس نے آواز دی
مَیں اسی ماں پہ دل سے فدا ہو گیا

0
119
انہیں ناراض ہونا ہو تو مجھ کو خواب آتا ہے
کہ جس کمرے میں رہتا ہوں وہ زیرِ آب آتا ہے
تری محفل میں سنتے ہیں اسی کی آمد آمد ہے
وہ جس کی دید کو ہر آدمی بے تاب آتا ہے
شناساؤں نے گو ترکِ تعلق کر لیا مجھ سے
مرے حسنِ غزل کو دیکھنے مہتاب آتا ہے

0
80
مجھ سے عجیب ہاتھ مرا پِیر کر گیا
میری زمیں پہ اپنا گھر تعمیر کر گیا
رہتا ہے اس گلی میں جسے ڈھونڈتے ہیں آپ
آ کر کسی نے موڑ پے تحریر کر دیا
ٰذی مرتبہ حسین تھے ذی مرتبہ رہے
جو کوئی بھی نہ کر سکا شبّیر کر گیا

0
189
چھیڑو نہ فسانے محمل کے اور بات کرو انسانوں کی
چپُّو نہ چلاؤ ساحل پر اور فکر کرو طوفانوں کی
بھگوان کے پاس تو وقت نہیں انسان بھی گونگے بہرے ہیں
یہ دَور ہے پتھّر کا لوگو یاں کس کو قَدَر ارمانوں کی
وہ دیکھو کُٹیا کے اندر اک جانِ سوختہ لیٹی ہے
جو رام کے واسطے دیتی رہی پر کون سنے بھگوانوں کی

135
روکتی ہیں عمر کی مجبوریاں
ورنہ خاطر میں نہ لاتا دوریاں
خواب میں بھی یہ کبھی سوچا نہ تھا
مجھ سے پہلے پونچیں گی بیساکھیاں
بے سبب تجھ کو گلہ ہے پھول سے
نا ہی ویسے پھول ہیں نا تتلیاں

0
152
مرے خیال میں اب تک وہ بات ہے باقی
کہا تھا چاند نے جس وقت رات ہے باقی
عبور کر لئے کتنے ہی پُل زمانے کے
سنبھل اے دل کہ ابھی پُل صراط ہے باقی
جو ڈرنے والے تھے ہر لغو سے بچے ہی رہے
کہا سرور نے عیش و نشاط ہے باقی

0
106
آ رہی ہے رات تو کچھ غم نہیں
وہم ہے اس کو کہ ہم آدم نہیں
جن کے پہلو میں گزارے رات دن
ساتھ ہی رہتے ہیں پر باہم نہیں
کیوں کسی کی برملا تحقیر ہو
ابنِ آدم آدمی سے کم نہیں

0
70
کچھ نہیں میرے لئے اب اُن کے پاس
اِلّا یہ کہ اور کر جائیں اداس
کیا کبھی سوچا ہے تم نے جانِ مَن
کون ہیں یہ لوگ تیرے آس پاس
زندگی جس کی کٹی خُدّام میں
جھونپڑی کیسے اسےآئے گی راس

0
124
شرارت کی تھی آنکھوں نے سزا پائی مرے دل نے
مجھے مبہوت کر ڈالا ترے نینوں کے کاجل نے
کناروں سے نکلتی مضطرب موجوں کی جولانی
بہت زوروں پہ ہے پانی دیا پیغام ساحل نے
بہت سے منزلوں کی جستجو میں عمر بھر بھٹکے
بہت تھوڑے ہیں جن کو آ کے خود ڈھونڈا ہے منزل نے

0
204
بھُولنا چاہتا ہوں لیکن اتنا بھی آساں نہیں
جتنے شکوے ہیں مرے لفظوں میں اتنی جاں نہیں
مَیں یہی سمجھا تھا اُن سے ختم ہوں گی رنجشیں
پر مرا ادراک ہے اب اس کے بھی امکاں نہیں
جس نے بچّوں کے لئے بے لَوث قربانی نہ دی
وہ ولی اللہ تو ہو سکتی ہے لیکن ماں نہیں

0
89
کیا حُسنِ مجسّم ہے عجب زہرہ جبیں ہے
اس عمر میں بھی دیکھ لو ویسی ہی حسیں ہے
قسمت کے جلَو میں ہیں تغیّر کے مباحث
ہاتھوں کی لکیروں کو غَرَض اس سے نہیں ہے
قرآن کا اطلاق گر آدم پہ ہے پھر تو
فردوسِ بریں دَور بہت دِور کہیں ہے

0
136
پھول رنگیں نہ سہی خوشبو ضروری ہے امید
ابرُو کالے ہوں نہ ہوں گیسُو ضروری ہے امید
دھیان سیرت پر بھی ہو لیکن نہ واللہ اس قدر
اندروں کی خیر ہے خوش رُو ضروری ہے امید
ہاتھ تو اُٹھے ہیں سائل پر دعاؤں کے لئے
صرف چشمِ تر نہیں آنسو ضروری ہے امید

0
112
وہ پوچھتے ہو جس کا مجھے علم نہیں ہے
جن گلیوں میں رہتا ہوں صنم تُو بھی وہیں ہے
وہ جس کو کبھی حُسنِ خداداد پہ تھا زعم
وہ آ کے یہاں دیکھ لے ہر چیز حسیں ہے
مسند سے رہی دیر تلک جس کی رقابت
اب خود بھی بڑی شان سے سجّادہ نشیں ہے

0
219
شام و عراق و افغان
مَیں اکیلا ہی نہیں سب ابنِ آدم ہیں یہاں
اُٹھ رہا ہے ہر مکاں ہر قصر سے کالا دھواں
اب سروں کو جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ساتھ ساتھ
لاشوں پر تعمیر کرنے شہر کوچے بستیاں
گر کبھی دیکھے نہیں ہیں لشکرِ اِبلیس تو

0
85
سب پُوچھتے ہیں نام کبھی کام نہ پُوچھا
آگاہ تھے آغاز سے انجام نہ پُوچھا
ہیں یاد مجھے آج بھی یارانِ قدح خوار
مَیں بھول گیا نام کبھی نام نہ پُوچھا
لا عِلم رہا رشتوں میں دولت کے عَمَل سے
شاعر ہوں اسی واسطے سے دام نہ پُوچھا

175
گلشن ہے باغ ہے نہ چمن پر نکھار ہے
جس سمت دیکھتا ہوں فضا سَوگوار ہے
کل تک جنہیں ہر آن تھا بس میرا ہی جنوں
اب تو انہیں کو شکل مری ناگوار ہے
پھولوں پہ رنگ ہے نہ ہے کلیوں پہ تازگی
یہ کیسا باغبان ہے کیسی بہار ہے

0
73
اب کے اُس نے جو نہ ملنے کی قسم کھائی ہے
وہ سمجھتا ہے مری جان پہ بن آئی ہے
دیلھ کر میری ہتھیلی کی لکیریں قسمت
ان گِنَت بار مرے خواب میں شرمائی ہے
ایک فانی پہ دل و جان لُٹانے کا صِلہ
اس سے اچھّی تو کسی قبر کی تنہائی ہے

0
94
تُم غَلَط سمجھے وہاں پر مَیں نہ تھا
مجھ پہ غُصّہ ہے تمہارا بے وجہ
وہ جنہیں تم سے کدورت ہے صنم
میرا اُن لوگوں سے کیسا واسطہ
خبرِ بد چھوڑی رقیبوں نے کہیں
اور تُم نے پڑھ لی میری فاتحہ

0
177
چھین کر دل کا سکوں کہتے ہو تیری خَیر ہو
کاش سمجھائے کوئی اپنے ہو تُم یا غَیر ہو
دیکھ کر ان کا سرِ محفل نگاہیں پھیرنا
یوں لگا مجھ کو ہمارے درمیاں کچھ بَیر ہو
میرے منہ میں خاک پر اکثر ہیں ان میں دھوکے باز
چاہے وہ بت خانہ ہو مسجد ہو چاہے دَیر ہو

0
136
مجھ کو برباد کسی اور کو آباد کیا
اب مجھے بھُول جا جاتے ہوئے ارشاد کیا
دولت و جاہ ہی کیا کم تھی جو اک اور بھی فرق
مجھ کو اک عام سا اور اس کو پری زاد کیا
ڈال کے زنداں میں معصوموں کے پر کاٹ دئے
پھر کہا مالی نے جاؤ تمہیں آزاد کیا

0
87
اُجڑی ہوئی محفل کے سِتَم دیکھ رہا ہوں
کیا لکھتے رہے اہل قَلَم دیکھ رہا ہوں
کیا عادتِ بد میرے وَطَن کی ہے خدایا
ہر بات پہ کھاتے ہیں قَسَم دیکھ رہا ہوں
اک باپ کے کندھوں پہ جواں بیٹے کی میّت
اُٹھتے ہوئے مایوس قَدَم دیکھ رہا ہوں

240
کس طرح غزلیں لکھوں مضمون سےرغبت نہیں
اس زمیں پر گھر نہیں ہے آسماں کی چھت نہیں
دیکھ کر افلاس غُربت عسرتیں حِزن و ملال
کیا کروں واللہ کہ ان صدموں سے ہی فرصت نہیں
امتیازِ غربت و دولت ہے اک ایسی خلیج
جس کو کم کرنے کی شاید اب کوئی صورت نہیں

0
111
آپ شافع ہیں اور مَیں گنہ گار ہوں
سخت عاصی ہوں مولا خطا کار ہوں
عمر کاٹی ہے جیسے سرِ دار ہوں
معترف ہوں کہ واللہ سیاہ کار ہوں
یہ بھی احساس ہے کہ سزاوار ہوں
اپنے عصیاں پہ لیکن شرم سار ہوں

0
111
درد و غم ہے عسرتیں آلام ہیں
اس زمیں پر بس یہی انعام ہیں
کامیابی چند لوگوں کے لئے
باقی سارے با خدا ناکام ہیں
پل رہی ہیں اشتہا کی گود میں
عصمتیں ہر چوک پر نیلام ہیں

0
118
اے تلخئی ایّام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جینا ہؤا الزام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
کل تک تو بھرے شہر میں چرچا رہا جس کا
اب ہو گیا گمنام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جس در پہ پدھاری ہیں وہ نا چیز کا گھر ہے
رُک جائیے مادام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں

0
100
اے لوگو ہم کو دوش نہ دو کیا ہم نے عشق ایجاد کیا
ہم سیدھے سادے لوگ تھے بس اک صورت نے برباد کیا
یہ عاشق بُلبل و فاختہ ہیں خود جال کے اندر پھنستے ہیں
جب پنجرے تک بات آ جائے پھر ہم دم کو صیّاد کیا
یاں اور بھی مشغلے ہیں یارو یاں اور بھی کام ہیں کرنے کے
کیوں اس چکّر میں پڑ کے اپنے آپ کو یوں ناشاد کیا

0
95
اس شہر کے ہر گھر میں عجب آگ لگی ہے
جس کو بھی ٹٹولو گے اسے اپنی پڑی ہے
ہر چند کہ خورشید و قمر جلوہ نما ہیں
آدم کے مقدّر میں وہی تیرہ شبی ہے
خائف ہیں ابھی اس لئے تالے ہیں زباں پر
اک آگ ہے جو وقت کے سینے میں دبی ہے

0
226
چل رہے ہیں جس ڈگر پر اس کی منزل ہی نہیں
ایسی ضد کا فائدہ کیا جس کا حاصل ہی نہیں
کیا کوئی ایسے سمندر سے بھی رکھّے گا امید
جس سمندر کا جہاں میں کوئی ساحل ہی نہیں
چھوڑ کر کشتی بھنور میں ناخدا کہنے لگا
ڈوبتی ہے ڈوب جائے میَں تو شامل ہی نہیں

227
تھم گئی ہیں وقت کی نبضیں قیامت آ گئی
ابنِ آدم کی مجھے لگتا ہے شامت آ گئی
کون ہوں کس دیس سے آیا ہوں مَیں کس کو پتہ
آپ آئے تو مرے قد میں بھی قامت آ گئی
ابتدائے عشق میں تھا کچھ تلوّن آشنا
ٹھوکریں پڑتی گئیں تو استقامت آ گئی

121
گزاری ہے جہاں جیسی شبِ ہجراں میں گزری ہے
کبھی دنیا کی آندھی میں کبھی طوفاں میں گزری ہے
نہ کوئی کارنامہ ہے نہ کوئی داستاں اپنی
جو سچ کہہ دوں تو لگتا ہے کسی زنداں میں گزری ہے
کسی کو ساتھ لے لیتا کسی کے سنگ ہی چلتا
ادھیڑ و بُن کی دلدل میں غمِ انساں میں گزری ہے

2
106
پھول ہیں کلیاں ہیں لیکن باغباں کوئی نہیں
ہم سفر ہیں ہم نوا ہیں رازداں کوئی نہیں
جیت لی توپوں نے بازی مار کر انسان کو
بچ گیا بارود لیکن بستیاں کوئی نہیں
کیا ہؤا ہے آسماں کو رنگ پھیکا پڑ گیا
چاند ہے تارے بھی ہیں پر کہکشاں کوئی نہیں

0
83
دیکھ آ کر ماں کہ تیری قبر پر آیا ہے کون
قلب و جاں کے ساتھ آنسو درد کے لایا ہے کَون
چھوڑ کر تُم کیوں بھلا اک ننّھے سے معصوم کو
کر گئیں ہر پیار سے نا آشنا محروم کو
مجھ سے پہلے بھی مرے بھائی بہن پیدا ہوئے
وہ بھی تو ایسے ہی تیرے پیار کے شیدا ہوئے

0
249
ہو گئے ایسے پشیمان کہ بس
لے گئیں تہمتیں یوں جان کہ بس
میزباں بننے سے توبہ کر لی
اس قدر آئے ہیں مہمان کہ بس
شین اور قاف کی چونچ پر
آکے یوں بیٹھ گئی عین کہ بس

0
119
کوزہ گری کا شوق تھا پورا نہ ہو سکا
مِٹّی تو جاندار تھی دانے نہ بو سکا
ماضی کی یادیں زندگی کا روگ بن گئیں
کل بھی کچھ ایسی رات تھی پل بھر نہ سو سکا
اوپر تلے کے حادثے بے حِس بنا گئے
مرگِ جوان پر بھی دل مطلق نہ رو سکا

0
106
دیکھ کر مجھ کو انہیں یکدم پسینہ آ گیا
اپنی حالت یہ کہ اک مُردے کو جینا آ گیا
عشق کی دشوار گھاٹی پر پھٹے ملبوسِ تن
گرچہ ہم درزی نہ تھے پر چاک سینا آ گیا
یہ ہماری کم نصیبی تھی کہ رندوں کی دعا
کل ہی چھوڑی تھی کہ ساون کا مہینہ آگیا

0
101
ہر گھڑی مجھ کو یہی اک وہم دامن گیر ہے
یہ جہاں اس کا ہے جس کے خواب کی تعبیر ہے
چند سِکّوں کے عوض کیوں بیچ ڈالا وہ بدن
جو کبھی شوہر کا تھا اب غیر کی جاگیر ہے
خال کے تِل سے من و تُو کا تصوّرمِٹ گیا
یہ ہے واحد تیرگی جو سب کو ہی اکسیر ہے

0
87
تم نہیں آئے مگر سارا زمانہ آ گیا
بجلیوں کی زد میں میرا آشیانہ آ گیا
جو بُنا کرتے تھے لوگوں کی کہانی رات دن
آج اخباروں میں ان کا بھی فسانہ آ گیا
رنگے ہاتھوں چوریاں کرتے ہوئے پکڑے گئے
ایک دو کا ذکر کیا سارا گھرانہ آ گیا

0
153
روک لیتا ہوں زباں کو دل نہ دُکھ جائے کہیں
جس طرح کا مَیں مکیں ہوں وہ بھی ایسے ہی مکیں
عمر ہے باسٹھ برس کی لیکن اپنے آپ کو
پیش کرتی ہیں کسی محفل کی شمعِ نازنیں
بات کرنے پر جو آ جائیں تو رُکنے کے نہیں
کتنا ہی شور و شغب کرتے رہیں گو سامعیں

0
211
تصویرِ یار یوں مرے دل میں رہا کرے
انگشتری میں جیسے نگینہ جڑا کرے
جس عاشقِ جاں باز کی جاں ہو عذاب میں
وہ کوئے یار جا کے اذانیں دیا کرے
روشن کرو تو عالمِ تیرہ کو اس طرح
جیسے ردائے صبح کو روشن ضیا کرے

0
172
میری زبان بند ہے ہر ایک کی نہیں
لوگوں کے لب پر آ گئی تو پھر رکی نہیں
اک عرصے بعد دیکھ کر ان کو مری نظر
ٹھٹکی تھی چند ساعتیں لیکن جُھکی نہیں
رندانِ بادہ خوار ہوں یا مفلس و غریب
سارے ستم رسیدہ ہیں کوئی سُکھی نہیں

0
121
روک لے اللہ مری کُٹیا پہ بجلی کا جلال
تیرے وعدوں پرگزارے زندگی کے ماہ و سال
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
اور مَیں راہوں میں آوارہ جنونی خستہ حال
اچھّا ہے عاشق نہیں ہوں کیا ملا عشّاق کو
دیکھ لو کیسی درخشندہ ہے رانجھے کی مثال

2
247
مرے وجود پہ نقشِ کہن کے لاشے ہیں
مری زبان پہ تشنہ لبی کے افسانے
مرے غنیم کو عقل و خِرد کا ہیضہ ہے
اسے خبر نہیں کس حال میں ہیں دیوانے
مَیں رات ہوں مری تقدیر میں ہے تیرہ شبی
کبھی چڑھے گا دِن یا نہیں سحر جانے

0
122
رات تو تیرہ تھی لیکن دن بھی اب تاریک ہے
یا اگر کچھ فرق باقی ہے تو بس باریک ہے
بے سبب غیروں کی باتوں میں نہ یوں آیا کرو
مَیں تو ہوں نزدیک تر تُو اور بھی نزدیک ہے
جب کبھی غُصّہ انہیں آئے تو واللہ صبر کر
کیونکہ یہ غُصّہ نہیں ہے چاہتوں کی بھیک ہے

0
137
ریت کی دیوار تھا مَیں گِر گیا تو کیا ہؤا
بے وفا کی دوستی میں باوفا رُسوا ہؤا
چھوڑ کر رستے میں مجھ کو ناخُدا کہنے لگا
ڈھونڈھ لینا راہ میں تِنکا کوئی بہتا ہؤا
وہ لڑکپن کی بہاریں مستیاں شور و شغب
کس طرح بھولے گا دل سے دَور وہ گزرا ہؤا

2
258
وہ وفائیں مری آزماتے رہے
ہم بھی دانستہ ہر زخم کھاتے رہے
مَیں ادھر قصۂ غم سناتا رہا
وہ اُدھر زیرِ لب مسکراتے رہے
ہم تو اپنی وفاؤں پہ نازاں رہے
وہ بھی اپنی جفائیں نبھاتے رہے

0
134