نفرت ہے کبھی پیار کا اظہار ہے مجھ سے
دعویٰ ہے رقیبوں کا کہ بیزار ہے مجھ سے
بہتر ہے کہ اک بار ہی سب معاملے طے ہوں
ہر بزم میں وہ بر سرِ پیکار ہے مجھ سے
ہر ایک کے پہلو میں ہے ہر رنگ میں غلطاں
کیا طُرفہ تماشا کہ فقط عار ہے مجھ سے
اس شہر میں ہر ایک کے لب پر ہے ترا نام
یہ سچ ہے وہ صاحبِ کردار ہے مجھ سے
سچ بات ہے خاطی بھی ہوں عاصی بھی ہوں واللہ
اس سچ پہ بھی آپ کو تکرار ہے مجھ سے
مانا کہ خطا کار و جفا پیشہ ہے امید
کچھ بول اگر اور طلب گار ہے مجھ سے

0
32