تذکرہ یار کا سب کو نہ سنانا ہرگز
اپنی باتوں کو فسانہ نہ بنانا ہر گِز
قِصّے میخانوں کے میخانوں میں ہی دفن کرو
راز کی بات ہے باہر نہ بتانا ہر گِز
سب کی تصویر بنا لیتی ہے خود کار مشین
آج سے سوچ لو جوتے نہ چرانا ہر گز
روٹھتے رہتے ہیں وہ یوں کہ منائے کوئی
پیشہ ور ہیں سبھی ان کو نہ منانا ہر گز
جس نے ہر گام پہ راہوں میں بچھائے کانٹے
بھُول سکتا ہی نہیں ایسا زمانہ ہر گِز
جیسے کو تیسے کے مصداق پہ نپٹو مرے دوست
ورنہ جینے نہیں دے گا یہ زمانہ ہر گز
دل کو بھاتے نہیں روتے ہوئے چہرے امید
دیکھنا اب نہ کبھی رونا کراہنا ہر گِز

0
23