شعر لکھنا چاہتا ہوں قافیہ ملتا نہیں
درد و آزاری تو ہے پر طربیہ ملتا نہیں
ایک عرصے بعد اپنے دیس میں آیا ہوں آج
حِصّے بخرے ہو گئے جغرافیہ ملتا نہیں
بارشیں ہونے لگی ہیں پھر بھی کتنا حبس ہے
اتنی ظلمت ہے کہ واللہ راستہ ملتا نہیں
مَیں اکیلا ہوں یہاں یا اور بھی کچھ لوگ ہیں
ڈھونڈتا رہتا ہوں لیکن ہم نوا ملتا نہیں
بھوُک سے لاغر بچارے ماں اور بچّے سو گئے
شام کو بھی کچھ نہ کھایا ناشتہ ملتا نہیں
کتنی با رونق ہے تیرے شہر کی بستی صنم
دل کو جس سے چین ہو وہ دلربا ملتا نہیں
کس طرح جیتے ہیں تیرے مُلک کے باسی امید
وہ قیامت ہے کہ جس کا مرثیہ ملتا نہیں

0
32