سُن لو مَیں آج اعتراف کرتا ہوں |
سارے کہتے ہیں تُم پہ مرتا ہوں |
لوگ کہتے ہیں سچ ہی کہتے ہیں |
اس لئے ہی بنا سنورتا ہوں |
یہ اداسی نہ ماں پہ ظاہر ہو |
مَیں تو ہر روز ہی بکھرتا ہوں |
جب سے دیکھا ہے ایک میّت کو |
اپنے مرنے سے اب مَیں ڈرتا ہوں |
میری تربت پہ وہ بھی آئے ہیں |
تھوڑا ٹھہرو کہ کچھ سنورتا ہوں |
کتنے دکھ اور اک اکیلی جاں |
کیا یہاں مَیں ہی کرتا دھرتا ہوں |
شیر خواری میں مائیں مرتی ہیں |
مصلحت پوچھنے سے ڈرتا ہوں |
دوست کہتے ہیں یہ نہ کرنا کبھی |
جب بھی مَیں کوئی کام کرتا ہوں |
بے سبب جب کوئی الجھتا ہے |
آخر انسان ہوں بپھرتا ہوں |
اس کہولت میں راہ چلتے امید |
گرتے پڑتے ہوئے سنبھلتا ہوں |
معلومات