سُن لو مَیں آج اعتراف کرتا ہوں
سارے کہتے ہیں تُم پہ مرتا ہوں
لوگ کہتے ہیں سچ ہی کہتے ہیں
اس لئے ہی بنا سنورتا ہوں
یہ اداسی نہ ماں پہ ظاہر ہو
مَیں تو ہر روز ہی بکھرتا ہوں
جب سے دیکھا ہے ایک میّت کو
اپنے مرنے سے اب مَیں ڈرتا ہوں
میری تربت پہ وہ بھی آئے ہیں
تھوڑا ٹھہرو کہ کچھ سنورتا ہوں
کتنے دکھ اور اک اکیلی جاں
کیا یہاں مَیں ہی کرتا دھرتا ہوں
شیر خواری میں مائیں مرتی ہیں
مصلحت پوچھنے سے ڈرتا ہوں
دوست کہتے ہیں یہ نہ کرنا کبھی
جب بھی مَیں کوئی کام کرتا ہوں
بے سبب جب کوئی الجھتا ہے
آخر انسان ہوں بپھرتا ہوں
اس کہولت میں راہ چلتے امید
گرتے پڑتے ہوئے سنبھلتا ہوں

0
41