عشق کی نظروں میں یارو حُسن بے توقیر ہے
جو بھی آنکھوں کو لبھا جائے وہ تیری ہیر ہے
کل تلک جس شہر کی سارے جہاں میں دھوم تھی
آج وہ ظالم کے پنجے میں پھنسا کشمیر ہے
بھُون ڈالے ان گنت معصوم طفلِ شیر خوار
اب غزہ میں طفل ہے نا خوار ہے نا شیر ہے
ہٹلر و چنگیز خاں تو کچھ علاقوں تک رہے
تیری عفریت کا چرچا سب سے عالم گیر ہے
کر رہی ہے فطرت اپنا کام غافل یاد رکھ
ساکت و صامت ہوا طوفان سے تعبیر ہے
ایسی ظلمت ہے کہ یا ربّ کچھ نظر آتا نہیں
گرچہ مہر و مہ بھی ہیں خورشید ہے تنویر ہے
بستیاں لُوٹو جلا دو گھر کہ دادا گیر ہو
ہم وطن حاضر ہیں خنجر بھالے ہیں شمشیر ہے
زندگی ایسے بسر دنیا میں کر خواجہ امید
جیسے اک بھٹکا ہؤا آدم ہے یا راہ گیر ہے

0
26