غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر |
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر |
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح |
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر |
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان |
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر |
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے |
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر |
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح |
چند کمرے صحن میں منظر پذیر |
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف |
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر |
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک |
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر |
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں |
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر |
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے |
بے نوا و دلربا میر و وزیر |
گھومتا رہتا بچارا بے زباں |
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر |
اس طرف ہمسائے میں بی بی چراغ |
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر |
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا |
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر |
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے |
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر |
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار |
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر |
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان |
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر |
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب |
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر |
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ |
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر |
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک |
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر |
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور |
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر |
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم |
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر |
آتا ہے جب وقت کا کیدو امید |
ہو تے ہیں منظر سے غائب رانجھا ہیر |
معلومات