رسوائیوں کا ڈر ہے تو مونہہ میں زبان رکھ |
ہر جا ترے رقیب ہیں واللہ دھیان رکھ |
ہر چوک پر فسانۂ رنج و الم نہ چھیڑ |
اُس کی نہیں تو اپنی ہی کچھ آن بان رکھ |
پردہ ہو جس سے فاش کسی کا وہ سچ ہی کیا |
ہر ایک لب پہ ایک نئی داستان رکھ |
بکھرے ہوئے خیالوں کی سمتیں درست کر |
رکھّا ہے جہاں تیر وہیں پر کمان رکھ |
دریا کا بند ٹُوٹ گیا ہے تو میری مان |
جا کر کسی پہاڑ پر اپنا مکان رکھ |
کر مشورہ سبھی سے سب کا احترام کر |
بے شک سبھی کی سُن مگر اپنا بیان رکھ |
ان آنسوؤں کو روک لے ورنہ ہنسیں گے لوگ |
گر پھر بھی بہہ ہی جائیں تو اونچی مچان رکھ |
جس چارہ گر کے ہاں ترے دُکھ کی دوا نہیں |
اس کے لئے بھی ہاتھ میں تیغ و سنان رکھ |
کوئی شریکِ غم نہیں تو غم نہ کر امید |
جو سب کا سائباں ہے وہی سائبان رکھ |
معلومات