جو آج ہے آواز وہ شاید نہ سنوں پھر
اور اپنی بھی آواز کو پہنچا نہ سکوں پھر
اک بار ہی سننے کی سزا جھیل رہے ہیں
اک بار اگر اور کہا کُن فیکوں پھر
سپنے میں انہیں دیکھ کے گھبرا سا گیا مَیں
گر سامنے آ جاتے تو کیا کرتا جنوں پھر
اکتانے لگا ہوں ترے افسانے سے اے دوست
اتنا بھی نہیں سادہ کہ دیوانہ بنوں پھر
دنیا کے تلاطم میں ہے نومیدی کا عنصر
ہر گام پہ ہوتا ہے تمنّاؤں کا خوں پھر
آئے ہو تو واپس بھی تو جانا ہے آخر
کچھ ایسا ہی بو جاؤ کہ مل جائے سکوں پھر
دنیا میں تو بس اشک بہاتے ہوئے گزری
عقبیٰ میں ہی امید قرینے سے رہوں پھر
(حاجی صاحب سے بات کرتے ہوئے )

0
94