کیا حُسنِ مجسّم ہے عجب زہرہ جبیں ہے
اس عمر میں بھی دیکھ لو ویسی ہی حسیں ہے
قسمت کے جلَو میں ہیں تغیّر کے مباحث
ہاتھوں کی لکیروں کو غَرَض اس سے نہیں ہے
قرآن کا اطلاق گر آدم پہ ہے پھر تو
فردوسِ بریں دَور بہت دِور کہیں ہے
تقسیمِ وراثت ہو اگر عدل پہ مبنی
وہ تیرا فلک ہے یہ زمیں میری زمیں ہے
ملتا نہیں حق دار کا حق اس کو کہیں بھی
دعوے تو سبھی کے ہیں مگر ایسا نہیں ہے
جو سب سے نکمّا تھا مرے ساتھ کا لڑکا
مُدّت سے وہی شخص یہاں تخت نشیں ہے
مجبور کو غربت نے ہی مجبور بنایا
نَو عمر بھی اک بوڑھے کے بستر کی مکیں ہے
تعلیم ہی دارین کی منزل کا ہے زینہ
ایسا نہیں امید تو پھر کچھ بھی نہیں ہے
بی۳

0
113