لُٹ گئے سر و سمن صیّاد نے دھوکہ دیا |
ہم دعا کرتے رہے فریاد نے دھوکہ دیا |
ہو گئے بدمعاش پھر قابض فصیلِ شہر پر |
آج کے فرعون نے شدّاد نے دھوکہ دیا |
چھوڑ کر تیری کمیں گاہ دشمنوں سے جا ملے |
ایک دو کی خیر ہے افراد نے دھوکہ دیا |
قبرِ قائد سے سنائی دے رہی ہیں سسکیاں |
باپ تکتا رہ گیا اولاد نے دھوکہ دیا |
دیکھ لے اقبال آ کر اپنے شاہیں کے کمال |
طائرِ لاہوت کی روداد نے دھوکہ دیا |
ہم سفر کہتے رہے تُو بات ہی سُنتا نہ تھا |
گر یہ سچ ہے پھر تری اضداد نے دھوکہ دیا |
دوستی کے رُوپ میں تُم وہ غنیمِ جان ہو |
جس کی جھُوٹی چاہ نے امداد نے دھوکہ دیا |
اب دعاؤں کے لئے بھی لب نہیں ہلتے امید |
ہر قدم پر اک نئی افتاد نے دھوکہ دیا |
معلومات