لُٹ گئے سر و سمن صیّاد نے دھوکہ دیا
ہم دعا کرتے رہے فریاد نے دھوکہ دیا
ہو گئے بدمعاش پھر قابض فصیلِ شہر پر
آج کے فرعون نے شدّاد نے دھوکہ دیا
چھوڑ کر تیری کمیں گاہ دشمنوں سے جا ملے
ایک دو کی خیر ہے افراد نے دھوکہ دیا
قبرِ قائد سے سنائی دے رہی ہیں سسکیاں
باپ تکتا رہ گیا اولاد نے دھوکہ دیا
دیکھ لے اقبال آ کر اپنے شاہیں کے کمال
طائرِ لاہوت کی روداد نے دھوکہ دیا
ہم سفر کہتے رہے تُو بات ہی سُنتا نہ تھا
گر یہ سچ ہے پھر تری اضداد نے دھوکہ دیا
دوستی کے رُوپ میں تُم وہ غنیمِ جان ہو
جس کی جھُوٹی چاہ نے امداد نے دھوکہ دیا
اب دعاؤں کے لئے بھی لب نہیں ہلتے امید
ہر قدم پر اک نئی افتاد نے دھوکہ دیا

0
91