روٹھ جاتی ہو تو کچھ اور حسیں لگتی ہو |
شکن آتی نہیں جس پر وہ جبیں لگتی ہو |
مَیں نے ہر گام پہ اخلاص و وفا وار دئے |
تم بھی ہر موڑ پہ پتھّر کی زمیں لگتی ہو |
میرے رستے میں منازل پہ منازل آئیں |
میرا وجدان ہے تم اب بھی وہیں لگتی ہو |
تیری چاہت کے علاوہ بھی کئی غم ہیں مجھے |
کیا ہؤا پاس نہیں پھر بھی یہیں لگتی ہو |
وہ بھی اک دَور تھا جب رونقِ محفل تھی تمہیں |
یہ بھی اک دَور ہے بس گوشہ نشیں لگتی ہو |
اسکو دیکھا تو مجھے آج لگا ایسے نوید |
جیسے پسماندہ سی بستی کی مکیں لگتی ہو |
معلومات