مجھ کو خموشیوں کا بڑا مشورہ دیا |
اور آپ اپنے راز سے پردہ اُٹھا دیا |
کوئی نہیں وہ اور بس ربِّ قدیر ہے |
اُس کو گرایا اِس کو پکڑ کر اُٹھا دیا |
جس کی اساس پانی کی اک بُوند ہے اسے |
لوگوں نے مکر و فن سے سروں پر بٹھا دیا |
اے خالقِ نقوش مری ہر خطا معاف |
تیرا پتہ نہیں تھا نبی نے بتا دیا |
اب تک ہے ہم نوا مجھے اس بات پر ملال |
پایا تو تھا کسی کو مگر پھر گنوا دیا |
جسم و شکم کی حاجتوں پر اتّفاق نے |
اک بد نصیب ماں کا بھی چُولہہ جلا دیا |
دولت کے زور پر اسے سب اختیار ہے |
ہر رات اک غریب کو دلہن بنا دیا |
ہر ایک پر نگاہِ کَرَم لَوٹتی رہی |
دیکھا مجھے تو دُور سے پردہ گرا دیا |
یہ امتیاز ہے فقط اقبال کو امید |
ہر ایک قلب و ذہن کو جینا سکھا دیا |
8 |
معلومات