اس جیون سے وہ کیا سیکھے جو سیکھتے سیکھتے خاک ہؤا
دُکھ سہتے صدیاں بیت گئیں اب رات کا دامن چاک ہؤا
ہر رات تو کالی تھی ہی مگر ہر صبح بھی یاں بے نُور رہی
کیا عمر مہینے گھڑیاں برس ہر لمحہ ہی عبرتناک ہؤا
جب ایک فلک تھا تب بھی سارے رنج و اَلَم ہمراہ رہے
اب دیکئے کیا بیتے گی وہاں جب تہہ در تہہ افلاک ہؤا
تُم مِل بھی گئے تو کیا حاصل اب قبر کا منظر سامنے ہے
اُس وقت حصولِ مقصد کیا جب خاک میں مِل کر خاک ہؤا
کچھ اہلِ وطن کچھ دل والے اس حالت پہ افسردہ ہیں
اب کیا حاصل اس رونے سے جب سب کچھ جل کر راکھ ہؤا

83