اُس نے بھُلا کے مجھ پہ یہ احسان کر دیا
سفرِ حیات کو بہت آسان کر دیا
لگتی رہیں ہر ایک سے خوش گپیاں مگر
دیکھا مجھے تو جان کر انجان کر دیا
کوٹھی بنائی کہنے لگے آپ کے لئے
پھر مجھ کو واں پہ حاجب و دربان کر دیا
پورے جہاں میں دھوم تھی جس دیس کی کبھی
اس کو غنیمِ شہر نے ویران کر دیا
یہ بھی تو ایک فلسفہ دانی کا ہے فتور
آدم کی باقیات کو حیوان کر دیا
تن کی ضرورتوں کا جب دارو نہ ہو سکا
مجبور ماں نے تن کا بلیدان کر دیا
کتنا عظیم آدمی ہے وہ جو بارہا
جس کو غریب دیکھا اسے دان کر دیا
انسان سے خطا ہوئی نسیان ہی تو ہے
جب ارتقا ہؤا اسے انسان کر دیا
محسن ہے میرا آج بھی جس نے کبھی امید
ہر چیز کو مرے لئے قربان کر دیا

2
89
بہت اچھے

0
شکریہ

0