Circle Image

مقبول حُسین

@maqbool

توحید کے سبب تجھے سجدہ روا نہیں
میں نے وگرنہ عشق میں کیا کیا کیا نہیں
تم بھی وفا کو طاق پہ رکھ کر چلے گئے
میں نےبھی جام زہرکا اب تک پیانہیں
تم خوش لباس ہوگئے جب سےجدا ہوئے
مجھ سے ابھی تک اپنا گریباں سِلا نہیں

54
سُنتا رہا انکار میں دن رات مسلسل
کھاتی رہی یوں میری انا مات مسلسل
جتنی بھی مُلاقات کی مانگی تھیں دُعائیں
ہوتی رہیں سب ردّ مناجات مسلسل
رہتا ہے مری آنکھ میں بس ایک ہی موسم
ہوتی ہے مری آنکھ سے برسات مسلسل

2
96
ملتی ہے اسپتال سے موت اب شفا نہیں
لینی اگر ہو سانس تو خالص ہوا نہیں
مدت سے ایک خوف سا طاری ہے شہر پر
آواز دی تو ایک بھی پتا ہلا نہیں
خاموش تھا تو زندگی آسان تھی بہت
کھولی زباں تو اب کہیں میری جگہ نہیں

2
322
تری یادیں سجاتا ہوں سرورِ شام سے پہلے
پھراُن میں ڈوب جاتا ہوں میں پہلے جام سے پہلے
مرے بھی نام کو شاید کوئی توقیر مل جائے
تمہارا نام آ جائے جو میرے نام سے پہلے
لگایا کہہ کے یہ مُلّا نے مجھ پر شرک کا فتویٰ
کہ میں کیوں نام لیتا ہوں تِرا ہر کام سے پہلے

0
90
میرے لبوں کو آگ لگا کر چلا گیا
اپنے لبوں کے نقش مٹا کر چلا گیا
تعبیر دینے آیا تھا خوابوں کی میرے ، وُہ
آیا تو اور خواب دِکھا کر چلا گیا
ساقی کے ساتھ مجھ کو بٹھا کر وُہ بے وفا
زاہد سے مجھ کو رند بنا کر چلا گیا

3
482
کفن بھی میرا بنے گا کسی کی اترن سے
کہ میرے ہاتھ میں کاسہ رہا ہے بچپن سے
امید رکھتا ہوں جلاد سے ، میں سادہ لوح
اتار پھینکے گا پھندا وُہ میری گردن سے
ادھار لے کے جو بچوں کا پیٹ بھرتا ہو
جہیز کیسے وُہ بیٹی کو دے گا ، پنشن سے

5
251
درد جو بھی پیار میں مجھ کو ملا اچھا لگا
ہجر کی سوزن سے خود کو چھیدنا اچھا لگا
پار کرنا تھا مجھے بھی ایک دریا عشق کا
اتفاقاً مجھ کو بھی کچا گھڑا اچھا لگا
گو سمندر اور دریا کا بھی وُہ شیدائی تھا
میری آنکھوں میں پر اس کو تیرنا اچھا لگا

72
اوپر سے آیا حکم تو خطبہ بدل لیا
پل بھر میں ہی امام نے فتویٰ بدل لیا
ہر بادشہ کی موت پہ بدلا جو بادشاہ
لوگوں نے زندہ باد کا نعرہ بدل لیا
میں نے مٹا دیں جب سے لکیریں شکست کی
دیوار پر خُدا نے نوشتہ بدل لیا

132
کہتے ہیں لوگ آ کے دوا دے گیا مجھے
پیالہ وُہ جب بھی زہر بھرا دے گیا مجھے
مانگا جو میں نے ہاتھ تو وُہ خود پسند شخص
اوقات میں رہوں ، یہ صلا دے گیا مجھے
گذرے قریب سے نہ ترے عشق کی ہوا
روتے ہوئے فقیر دُعا دے گیا مجھے

95
پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نے مجھے جام و سبو کے درمیاں
بس اب تو اس کے دیس میں رہنا ہے چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں
گھر پر مرے آتا نہیں وُہ مِنّتوں کے باوجود
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں

74
اترے ہیں خالی ہاتھ سکندر مزار میں
کس بات کا غرور ہے مشتِ غُبار میں
لکھوا دیئے عدو نے وُہ بھی اشتہار میں
الزام جو نہیں تھے مری روبکار میں
اے موت معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں
مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں

7
280
محبت سے مری پیاسی زمیں کو تر نہیں کرتا
وہ بارش پیار کی کرتا تو ہے ، جم کر نہیں کرتا
اگر انسان ہے وُہ ، کیوں محبت کا نہیں قائل
اگر انساں نہیں ہے ، کیوں وُہ برپا شر نہیں کرتا
بہت مغرور ہوتے ہیں حسیں لیکن تری مانند
خدا بن جائے ، یہ کوئی بتِ کافر ، نہیں کرتا

4
158
وُہ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے میری باگ مسلسل
جدھر کو چاہے وہ موڑے مجھے ہے گھاگ مسلسل
خبر یہ ہے کہ ملے گا کہیں سے لاش کی صورت
خلاف ظلم کے جو گا رہا ہے راگ مسلسل
نہیں ہے خاک سے پیدا ہوئے میں خاک کی تاثیر
لگائے پھرتا ہے چاروں طرف یہ آگ مسلسل

2
134
کٹی ہو جب غلامی میں تو کیا احرار کی باتیں
جھکا کر جب کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
وہ “پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے” ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں
ہمارے گھر کو لوٹا ہے ہمارے گھر کے لوگوں نے
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں

70
نہ کسی کو خوفِ خدا یہاں ، نہ ہی بے حسی پہ ملال ہے
یہ بتا رہی ہیں علامتیں کہ یہ شہر روبَہ زوال ہے
جو قلم بھی چھین کے لے گئے ، جو ہیں قفل مُنہ پہ لگا گئے
وُہ نکال دیں گے اب آنکھ بھی ، یہ ہر اک نظر میں سوال ہے
میں نکل گیا غمِ رزق سے ، تو اُلجھ گیا کسی زلف میں
میں ہوں امتحان میں ہر جگہ ، یہ ہے زندگی کہ وبال ہے

258