سُنتا رہا انکار میں دن رات مسلسل
کھاتی رہی یوں میری انا مات مسلسل
جتنی بھی مُلاقات کی مانگی تھیں دُعائیں
ہوتی رہیں سب ردّ مناجات مسلسل
رہتا ہے مری آنکھ میں بس ایک ہی موسم
ہوتی ہے مری آنکھ سے برسات مسلسل
میں میں ہوں کہ تُو ہے بھلا تُو تُو ہے کہ میں ہوں
اُٹھتے ہیں مرے ذہن میں خدشات مسلسل
ہے اور تُمہیں جاننے کا شوق مرا بھی
کُچھ لوگ بھی کرتے ہیں سوالات مسلسل
ربّ، میرے غریبوں کو مکانات دے پکے
ہوتی ہے مرے گاؤں میں برسات مسلسل
تُم پوچھتے رہتے ہو وُہ لگتا ہے مِرا کیا
تُم لوگ بھی کرتے ہو کمالات مسلسل
بن جائے گا افسانہ بھرے شہر میں مقبول
رویا نہ کرو ہر گھڑی بے بات مسلسل

2
96
بہت خوب جناب! عمدہ غزل۔۔۔???

تنہا صاحب ،بہت مہربانی حوصلہ افزائی کے لیے

0