| میرے لبوں کو آگ لگا کر چلا گیا | 
| اپنے لبوں کے نقش مٹا کر چلا گیا | 
| تعبیر دینے آیا تھا خوابوں کی میرے ، وُہ | 
| آیا تو اور خواب دِکھا کر چلا گیا | 
| ساقی کے ساتھ مجھ کو بٹھا کر وُہ بے وفا | 
| زاہد سے مجھ کو رند بنا کر چلا گیا | 
| وُہ چھوڑ کر چلا گیا کچھ بھی کہے بغیر | 
| وُہ درد میرا اور بڑھا کر چلا گیا | 
| رہنے دیا ثبوت نہ کوئی بھی میرے پاس | 
| تصویریں اپنی خود ہی جلا کر چلا گیا | 
| ٹھہرا نہ کوئی بند بھی پھر اس کے سامنے | 
| دریا جو میری آنکھ بہا کر چلا گیا | 
| ملتا گلے تھا لگ کے جو مقبول بار بار | 
| رخصت ہوا تو ہاتھ ہلا کر چلا گیا | 
 
    
معلومات