ملتی ہے اسپتال سے موت اب شفا نہیں
لینی اگر ہو سانس تو خالص ہوا نہیں
مدت سے ایک خوف سا طاری ہے شہر پر
آواز دی تو ایک بھی پتا ہلا نہیں
خاموش تھا تو زندگی آسان تھی بہت
کھولی زباں تو اب کہیں میری جگہ نہیں
میرے نگر کے باسیوں نے طے کیا ہے یہ
ہم نے غلام رہنا ہے ، ہونا رہا نہیں
ہمت نہیں کسی میں کہ اتنا ہی بول دے
زندوں کا ملک ہے کہ یہ عبرت کی جا نہیں
مجھ کو نہ راہِ حق سے کوئی بھی ہٹا سکا
مقتل میں ہوں کہ جبر کے آگے جھُکا نہیں
اس سلطنت کے تخت پہ بیٹھے ہیں ایسے لوگ
جن کا اسے بنانے میں کچھ بھی لگا نہیں
ملتی نہیں یہاں پہ اجازت سوال کی
اتنی گھٹن ہے ، سوچ کا بھی در کھُلا نہیں
بن جاتا ورنہ میں بھی حکومت میں اک وزیر
بازار میں ضرور تھا لیکن بکا نہیں
نکلے ہیں آستیں سے مری سَو طرح کے سانپ
غیروں کے وار سے کبھی میں یوں گرا نہیں
ہوں گے ،وُہ جن کو بخت بٹھاتے ہیں تخت پر
ہم تو وُہ بد نصیب ہیں ، لگتی دُعا نہیں
پھرتے برادران ہیں یوسف کے ہر طرف
مقبول ، دل سے کوئی کسی کا سگا نہیں

2
322
ماشآاللہ خوب بہت خوب!
بازار میں ضرور تھا لیکن بِکا نہیں!

خواجہ صاحب، بہت شکریہ آپ نے میری کاوش کو پسند فرمایا

0