اوپر سے آیا حکم تو خطبہ بدل لیا |
پل بھر میں ہی امام نے فتویٰ بدل لیا |
ہر بادشہ کی موت پہ بدلا جو بادشاہ |
لوگوں نے زندہ باد کا نعرہ بدل لیا |
میں نے مٹا دیں جب سے لکیریں شکست کی |
دیوار پر خُدا نے نوشتہ بدل لیا |
دل ہارنے لگا تو وُہ لے آیا اک رقیب |
ہونے لگی شکست تو مہرہ بدل لیا |
مشغول وُہ بھی ہو گیا اک باب میں نئے |
اور زندگی کا میں نے بھی صفحہ بدل لیا |
ہر بے وفا کو دور سے پہچانتے ہیں لوگ |
اچھا کیا جناب نے چہرہ بدل لیا |
آئے کبھی نہ جرم عدو کے نظر اسے |
میرا بلاوہ آیا تو چشمہ بدل لیا |
سارے مکان چھوڑ گئے اس گلی کے لوگ |
جب اس نے گھر کو جانے کا رستہ بدل لیا |
شاید ترے خیال سے پیچھا چھڑا سکوں |
میں نے اسی خیال سے قصبہ بدل لیا |
مقبول ہم بدل نہ سکے اپنا نام تک |
یاروں نے جتنی دیر میں شجرہ بدل لیا |
معلومات