پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں |
جب رکھ دیا اس نے مجھے جام و سبو کے درمیاں |
بس اب تو اس کے دیس میں رہنا ہے چاہے کچھ بھی ہو |
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں |
گھر پر مرے آتا نہیں وُہ مِنّتوں کے باوجود |
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں |
شیشہ نہ چُبھ جائے کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں |
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں |
دستار بندی اب تو ہوتی ہے اچکّوں کی یہاں |
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں |
وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے |
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں |
رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی |
لگتی ہیں مجھ کو ہر برس اس دن مسلسل ہچکیاں |
ہیں زندگی بھر ساتھ یہ تحفے جُدائی کے ترے |
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں |
وُہ تھا محبت میں شریکِ جرم ، منصف نے مگر |
جانے دیا اس کو، مرے پاؤں میں ڈالیں بیڑیاں |
نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کُہسار پر |
جب روم بھر میں جل رہیں تھیں بستیوں پر بستیاں |
افسوس دیتا خون کوئی اور ہے تعمیر میں |
لگتی کسی اور نام کی منصوبوں پر ہیں تختیاں |
مقبول صورت دید کی پیدا کرو اب اور کوئی |
ارسال ان کو کر چُکے ہو تُم ہزاروں عرضیاں |
معلومات