| درد جو بھی پیار میں مجھ کو ملا اچھا لگا |
| ہجر کی سوزن سے خود کو چھیدنا اچھا لگا |
| پار کرنا تھا مجھے بھی ایک دریا عشق کا |
| اتفاقاً مجھ کو بھی کچا گھڑا اچھا لگا |
| گو سمندر اور دریا کا بھی وُہ شیدائی تھا |
| میری آنکھوں میں پر اس کو تیرنا اچھا لگا |
| پاؤں بھی کاٹے ، نہیں رہنے دیا ہاتھوں کو بھی |
| میں امیرِ شہر کو بے دست و پا اچھا لگا |
| کہہ دیا مخلُوقِ کو جذبات سے کھیلے مگر |
| خود ، خُدا کو قسمتوں سے کھیلنا اچھا لگا |
| جاگتے اہلِ جنوں ہیں رات بھر تیرے لیے |
| کب کسی کو ہے یہ ورنہ رت جگا اچھا لگا |
| کس طرح تنہا رہوں میں، درد جھیلوں کس طرح |
| یہ ہنر بھی دل سے اپنے سیکھنا اچھا لگا |
| سب حسیں تیروں سے تھے آراستہ لیکن مجھے |
| کوئی بھی قاتل نہ پھر تیرے سوا اچھا لگا |
| پاس میرے لوٹ آیا آزما کر سب کو وُہ |
| ہار کر اس بے وفا سے جیتنا اچھا لگا |
| چاہتا تھا ریشم و کم خواب وُہ اپنے لیے |
| جھونپڑی اُس کو، نہ میرا بوریا اچھا لگا |
| رکھ دیا سب کھول کر مقبول اس نے سامنے |
| جھوٹ کی دُنیا میں مجھ کو آئینہ اچھا لگا |
معلومات