عشق کی بیماریوں سے کچھ بھی تو حاصل نہیں
یہ وہ گُل ہے جس کی بنیادوں میں آب و گِل نہیں
واہ کیا زلفیں ہیں کیسا ناز و نخرہ رنگ و بُو
ہاں یہ سب کچھ ہے مگر گالوں پہ کوئی تِل نہیں
ان گنت دعوے ہیں زخمِ دِل کے سب اشعار میں
غور سے دیکھا تو کوئی ایک بھی بسمِل نہیں
ہاں یہ سچ ہے خاطی ہوں عاصی بھی ہوں اے ہم نوا
عام انسانوں میں لیکن کوئی بھی کامل نہیں
وہم ہے تیرا کہ سب تیرے لئے ہی آئے ہیں
آؤ آ کر پوچھ لو کہ پوچھنا مشکل نہیں
ایک خوش ہے دیس میں تو ان گنت بیزار ہیں
کون ایسا ہے جو پوری بستی میں گھائل نہیں
یا الہٰی لاج رکھ لے میرے پاکستان کی
یہ وہ دریا ہے کہ جس کا کوئی بھی ساحل نہیں
تا ابد قائم رہے گا یہ مرا پیارا وطن
ختم اس کو کر سکے وہ شوخئی باطل نہیں
ہو گئی آدھی صدی جب چھوڑا تھا اپنا وطن
باغباں کافی ہیں لیکن سر بریدہ ہے چمن

0
18