سب پُوچھتے ہیں نام کبھی کام نہ پُوچھا
آگاہ تھے آغاز سے انجام نہ پُوچھا
ہیں یاد مجھے آج بھی یارانِ قدح خوار
مَیں بھول گیا نام کبھی نام نہ پُوچھا
لا عِلم رہا رشتوں میں دولت کے عَمَل سے
شاعر ہوں اسی واسطے سے دام نہ پُوچھا
کوٹھی کے مکیں ہو یا کسی کُٹیا کے ساکن
اب تک تو کبھی تیرا در و بام نہ پوچھا
دنیا کو غَرَض تیری مسافت سے نہیں ہے
گر منزلیں پا لیں تو کبھی گام نہ پوچھا
مجبور ہوں سب جانتے ہیں لوگ گلی کے
بِکتی ہوں سرِ شام کبھی دام نہ پوچھا
اے ساقیٔ کوثر مجھے دو گھونٹ پلا دے
پیاسا ہوں کسی نے بھی کبھی جام نہ پوچھا

168