جو اب تیرا فسانہ ہے وہی میری کہانی تھی |
تمہیں باتیں سنا کر شاعروں سے داد پانی تھی |
نہیں عادت مجھے ہرگز گلوں شکووں کی اے دلبر |
مرے ہم پیشہ کو اس آڑ میں اپنی سنانی تھی |
نہیں ہر گز نہیں کس نے کہا وہ بد تمیزی تھی |
جنہیں وہ گالیاں کہتے ہیں تیری گُل فشانی تھی |
سجائے ہیں گلی کُوچوں میں مقتل قومِ مُوسیٰ نے |
کہیں توپوں کا شوروغُل کہیں پر ناتوانی تھی |
بڑی مشکل سے یاوہ گوئی سے پیچھا چھڑایا ہے |
وگرنہ جھُوٹ کہنا سُننا ہی عادت پرانی تھی |
ابھی تک یاد ہے کیا خوب اندازِ خطابت تھا |
عجب الفاظ کی شورش عجب شعلہ بیانی تھی |
بہت عرصے کے بعد اک دوسرے کو رہ گئے تکتے |
مرے ہاتھوں میں رعشہ تھا وہ دو بچّوں کی نانی تھی |
روپوں پیسوں کے لالچ میں ہوئے اضمار کے سودے |
جہاں جنگل بیاباں ہیں وہاں اک راجدھانی تھی |
ابھی یہ دن تری باتوں سے ہے نفرت امید ان کو |
کبھی وہ دن بھی تھے جب ہر ادا تیری نشانی تھی |
معلومات