رُخصت ہؤا تو دل کو پریشان کر گیا
ترکِ تعلّقات کا اعلان کر گیا
مضمر ہے تیرے شر میں بھی اک خیر بالیقیں
اس زاوئے سے زندگی آسان کر گیا
جو کام آج تک کوئی دشمن نہ کر سکا
وہ نَو مئی کو ٹیم کا کپتان کر گیا
ساقی ترے مے خانے کا دیرینہ رند ہوں
لیکن ترا رویّہ تو حیران کر گیا
دل کے علاوہ اور بھی اعضا ہیں جسم کے
لیکن یہ نامراد تو ویران کر گیا
دیوار سے لگا کے وہ سمجھے مَیں ڈر گیا
یہ بالیقین کوئی مسلمان کر گیا
فاقوں سے تنگ آ کے کی جو خود کشی امید
ناداں یہ حل نہیں ہے جو نادان کر گیا

0
35