سو گئے دیوار و در سارا جہاں سوتا رہا
آدمی کی بے بسی پر آسماں سوتا رہا
کون ہے تیرا یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں
تُو جو زندہ ہے تو کیا تیرا نشاں سوتا رہا
لوگ رہتے ہیں زمیں پر بستیاں آباد ہیں
لُٹ گیا آدم بچارا پاسباں سوتا رہا
اس زمیں پر زندگی باقی رہے تو کس لئے
پِٹ گئی مخلوق ساری رازداں سوتا رہا
سازِ فطرت بھی ہے باقی ہم نفس بھی ہیں یہاں
محفلیں ویراں ہیں کیونکہ نغمہ خواں سوتا رہا
حدّتِ ایمان اور تکریم بھی ہے دل میں پر
جل گیا قرآن میرِ کارواں سوتا رہا
دیکھ کر افلاس و بیماری نحوست بیکسی
پھٹ پڑا آتش فشاں سُود و زیاں سوتا رہا
سنتے ہی اک شخص کہ رشوت نہیں لیتا امید
ہکّا بکّا ہو کے کوئی بدگماں سوتا رہا

0
32