غزل لکھوں تو لکھوں اپنے جانِ من کے لئے |
زہے نصیب اگر تاب ہو سُخن کے لئے |
عجیب طُرفہ تماشا ہے سارے بیٹھے ہیں |
وطن فروش بھی آئے ہیں اب وطن کے لئے |
ہجوم یونہی نہیں ہے شراب خانے میں |
دوا ضروری ہے انسان کی تھکن کے لئے |
بہت ہی رویا ہوں تجھ سے بچھڑ کے میرے وطن |
سزا بھی سب سے کڑی ہے جلا وطن کے لئے |
تمہارے ہجر میں کاٹے ہیں ایسے شام و سحر |
غریب جس طرح تڑپا ہو اک کفن کے لئے |
یہ مال و زر نہیں لگتا ہے ربِّ کعبہ ہے |
ہر ایک سجدہ کناں ہے حصولِ دھن کے لئے |
تباہ حال غریبوں کی داستان نہ پوچھ |
بھرا ہو پیٹ تو بچتا نہیں ہے تن کے لئے |
وہ جس کے پیڑوں پہ جھولے تھے سب طیور کبھی |
ہزاروں بلبلیں روتی ہیں اس چمن کے لئے |
وہ جس میں پھول ہو خوشبو ہو اور رنگ بھی ہو |
غزل سرا ہے امید ایسے گلبدن کے لئے |
معلومات