روحِ سخن ہو تُم ہی غزل کا نکھار ہو
آئے کبھی خزاں نہ تم ایسی بہار ہو
بھٹکا ہؤا راہی ہوں کسی ریگزار کا
تم ریگزاروں میں بھی شجرِ سایہ دار ہو
مانی تھیں مَیں نے منّتیں کعبے کے روبرو
جنّت وہاں ملے جہاں دیدارِ یار ہو
اب آئے ہو تو سُن لو کہ ہم بھی ہیں راہ میں
رکنا وہیں پہ جس جگہ میرا مزار ہو
میرے پڑوس میں ابھی خالی ہے اک جگہ
نہ نہ خدا کرے تمہیں ڈینگی بخار ہو
نسلِ یہود سے کوئی پوچھے تو با خدا
یہ کیسا استکبار ہے جس پر سوار ہو
ہر چند عقل و خِرد میں حاصل ہے برتری
اور یہ بھی سچ ہے سارے ہی سرمایہ دار ہو
پر دوسرے بھی جینے کا رکھتے ہیں حق ضرور
مفلس ہو کوئی یا کوئی مزدور دار ہو
تم بھی رہو اور اہلِ فلسطین بھی یہاں
کیوں مرنے مارنے پہ ہی سدا بے قرار ہو

0
19