نقش گر ہر حادثے سے باخبر کرتا رہا
آدم اپنے زعم میں صرفِ نظر کرتا رہا
کتنی خاموشی سے کی تخلیق خالق نے حیات
کتنی سرعت سے کوئی زیر و زبر کرتا رہا
میری ناداری کے چرچے ہیں زمین و آسماں
آسماں والا بھی اعراضِ بصر کرتا رہا
آ ذرا اک بار آ کر دیکھ اس بستی کا حال
جس کو ابنِ موسیٰ کب سے در بدر کرتا رہا
ظالموں نے ظلم کی بھی انتہا کر دی مگر
مظلوم بھی صبر و رضا سے در گزر کرتا رہا
کیا کروں تیری رفاقت کو مرے ہمدم رفیق
کیا کہوں کیا مجھ سے میرا چارہ گر کرتا رہا
پرسوں والا سانحہ ایسے گرا سب پر امید
دُور سے آ کر جو مریم کا پسر کرتا رہا

0
4