اگر وہ چھوڑ گیا ہے تو اس کا غم نہ کر |
ذرا ذی عزم بن اپنا وقار کم نہ کر |
ہوا کے دوش پر جو منزلوں کی اور گئے |
ٹھہر کے دیکھ اُن کی پھرتیاں رقم نہ کر |
نہیں ہے حرص و آز کی ذرا طلب مجھ کو |
خدا کے واسطے یہ دعویٰ اے صنم نہ کر |
جو آیا تھا یہاں اس نے ضرور جانا ہے |
چلا گیا ہے جو اس کا مزید غم نہ کر |
ہر اک دکان پر زندہ ضمیر بِکتے ہیں |
پر ان کی داستانِ زندگی رقم نہ کر |
شریف لوگ ہیں خود بھی شریف زادے ہیں |
گلی محلّے میں ان کا وقار کم نہ کر |
سحر ہو جائے گی آخر کو اک دن تو امید |
خدا کے واسطے اس شمع کی لَو کم نہ کر |
معلومات