اگر وہ چھوڑ گیا ہے تو اس کا غم نہ کر
ذرا ذی عزم بن اپنا وقار کم نہ کر
ہوا کے دوش پر جو منزلوں کی اور گئے
ٹھہر کے دیکھ اُن کی پھرتیاں رقم نہ کر
نہیں ہے حرص و آز کی ذرا طلب مجھ کو
خدا کے واسطے یہ دعویٰ اے صنم نہ کر
جو آیا تھا یہاں اس نے ضرور جانا ہے
چلا گیا ہے جو اس کا مزید غم نہ کر
ہر اک دکان پر زندہ ضمیر بِکتے ہیں
پر ان کی داستانِ زندگی رقم نہ کر
شریف لوگ ہیں خود بھی شریف زادے ہیں
گلی محلّے میں ان کا وقار کم نہ کر
سحر ہو جائے گی آخر کو اک دن تو امید
خدا کے واسطے اس شمع کی لَو کم نہ کر

21