سیلاب کے بعد بچ رہنے والا بوڑھا باپ
مَیں اپنی دعاؤں کا اثر ڈھونڈ رہا ہوں
تاریک اندھیروں میں سحر ڈھونڈ رہا ہوں
سیلاب نہیں ایک قیامت تھی جو گزری
اس موڑ پہ اک گھر تھا وہ گھر ڈھونڈ رہا ہوں
امداد کے لالچ میں جواں لاشوں کو نوچا
مذکور بہ قرآن بشر ڈھونڈ رہا ہوں
بیٹی بھی گئی اس کے کھلونے بھی ہوئے گُم
اک گُڑیا ہے اس گڑیا کا سر ڈھونڈ رہا ہوں
اے کاش کوئی مجھ کو تری لاش ہی لا دے
کھویا ہے مرا لختِ جگر ڈھونڈ رہا ہوں
سب بہہ گئے پانی میں فقط مَیں بد قسمت
اے مَوت ترا دستِ ہنر ڈھونڈ رہا ہوں
موجوں نے بھی معصوم غریبوں کو لتاڑا
کب قصر بنے لُقمۂ تر ڈھونڈ رہا ہوں
امید غمِ زیست میں اِک اور اضافہ
آنسو ہی نہیں دیدۂ تر ڈھونڈ رہا ہوں

0
43