جس نے دیکھا تجھے وہ فنا ہو گیا
حُسن والوں کا صدقہ ادا ہو گیا
مجھ کو ہر گام پر سجدے کرنے پڑے
کیا کریں جب زمانہ خدا ہو گیا
بیٹا کہتے ہوئے جس نے آواز دی
مَیں اسی ماں پہ دل سے فدا ہو گیا
زندگی قیدِ عسرت میں جس کی کٹی
جب مرا تو جہاں سے رہا ہو گیا
شیر خواری میں ماں سے بچھڑنا پڑا
میرا اور ایک سجدہ قضا ہو گیا
میری جس سے کبھی آج تک نا بنی
اب اچانک وہی ہم نوا ہو گیا
فیصل آباد تجھ کو مَیں بھُولا نہیں
چھوڑ کر تجھ کو مجھ سے گنہ ہو گیا
کتنا مقروض تھا وادئی حُسن کا
اس کو دیکھا تو قرضہ ادا ہو گیا
دوستی ہو گئی اُس سے امید جب
مَیں ہوں اُس کی وہ میری دعا ہو گیا
بی۳

0
100