فون کیا تھا خواب کی تعبیر تھی |
ماضی کی یادیں نہیں شمشیر تھی |
جو حقیقت تھی فسانہ بن گئی |
ہر کہانی پاؤں کی زنجیر تھی |
روز ملتے تھے کبھی لڑتے بھی تھے |
اگلے دن پھر ملنے کی تدبیر تھی |
روتے روتے غور سے سُنتا رہا |
اُس کی ہر اک بات دامن گیر تھی |
لُوٹ کر سب کھا گئے میرا وطن |
جیسے اُن کے باپ کی جاگیر تھی |
ہو گئی آدھی صدی بچھڑے ہوئے |
کس بنا پر کون سی تقصیر تھی |
کتنے ہی آئے مِلے جاتے رہے |
ہاں مگر تیری رفاقت شِیر تھی |
بند کر دو عہدِ پارینہ نوید |
وہ کہو جو قلب پر تحریر تھی |
آ گیا جب وقت کا کیدو امید |
نہ کہیں رانجھا نہ کوئی ہیر تھی |
معلومات