فون کیا تھا خواب کی تعبیر تھی
ماضی کی یادیں نہیں شمشیر تھی
جو حقیقت تھی فسانہ بن گئی
ہر کہانی پاؤں کی زنجیر تھی
روز ملتے تھے کبھی لڑتے بھی تھے
اگلے دن پھر ملنے کی تدبیر تھی
روتے روتے غور سے سُنتا رہا
اُس کی ہر اک بات دامن گیر تھی
لُوٹ کر سب کھا گئے میرا وطن
جیسے اُن کے باپ کی جاگیر تھی
ہو گئی آدھی صدی بچھڑے ہوئے
کس بنا پر کون سی تقصیر تھی
کتنے ہی آئے مِلے جاتے رہے
ہاں مگر تیری رفاقت شِیر تھی
بند کر دو عہدِ پارینہ نوید
وہ کہو جو قلب پر تحریر تھی
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
نہ کہیں رانجھا نہ کوئی ہیر تھی

1
44
خواجہ صاحب! یہ بھی خوب ہے۔ ایک مشورہ دے رہا ہوں، امید ہے درگزر فرمائیں گے۔

اگر آخری مصرعے میں پہلے "نہ" کی جگہ "تھا" کا استعمال کیا جائے تو خیال بھی وہی رہے گا اور وزن بھی پورا ہو جائے گا۔

گستاخی معاف فرما دیجیئے گا ۔

0