اب کے اُس نے جو نہ ملنے کی قسم کھائی ہے
وہ سمجھتا ہے مری جان پہ بن آئی ہے
دیلھ کر میری ہتھیلی کی لکیریں قسمت
ان گِنَت بار مرے خواب میں شرمائی ہے
ایک فانی پہ دل و جان لُٹانے کا صِلہ
اس سے اچھّی تو کسی قبر کی تنہائی ہے
اب تو ہر چیز ہی وافر ہے محبّت کے سوا
ڈھونڈنے والا بھی دیوانہ ہے سودائی ہے
ہر نئے طعن پہ برداشت ہے گر صبرِ عظیم
پھر بڑی طُول ترے صبر کی لمبائی ہے
دال کی آٹے کی ہر چیز کی قیمت اللہ
مر گئے سارے کہاں دردِ مسیحائی ہے
ننّھے معصوم کو فاقوں سے تڑپتے دیکھا
پھٹ گئے قلب و جِگر آنکھ بھی بھر آئی ہے

0
86