رات جتنی کالی ہو اتنی سحر نزدیک ہے
اور اگر کچھ فرق بھی ہے تو بہت باریک ہے
قومِ موسیٰ نے بنایا دو ارب کو یرغمال
حاملِ قرآن تیری اور کیا تضحیک ہے
آنے والا دور کیسا ہے خدا کو علم ہے
مَیں تو جو کچھ دیکھتا ہوں عالمِ تاریک ہے
عالمی بنکوں سے قرضہ لیتی ہیں اقوامِ نَو
ہم سے وہ برتاؤ گویا قرض نہ ہو بھیک ہے
مسلم اُمّہ کو مٹا دو عالمِِ تکوین سے
مغربی اقوام کی با ضابطہ تحریک ہے
کیا ارادے ہیں ترے اے مالکِ کون و مکاں
زیر دستوں کے لئے صدیاں ہوئیں تعویق ہے
بیٹھے ہیں راہوں میں کب سے ہو کبھی تو التفات
یہ بھی نا ممکن ہؤا تو جو بھی ہو گا ٹھیک ہے
شاید اک دن رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
حکمِ ربیّ ہے سدا ایمان رکھ لا تقنٰطُو

0
32