نہ دیتے گر معافی وہ تو دل رنجور ہو جاتا |
یہی گھاؤ پھر آخر ایک دن ناسور ہو جاتا |
اگر جنّت میں عورت کی بھی خواہش پوچھ لی جاتی |
تو شاید مرد بیچارہ بھی کوئی حور ہو جاتا |
اگر ان پر مری غربت کا پردہ چاک ہو جائے |
تو جتنا پاس ہوں اس وقت اتنا دُور ہو جاتا |
تری صورت کا گر اک بُت کہیں تعمیر کرنا ہو |
تو پُورے شہر کا ہر آدمی مزدور ہو جاتا |
یہ بازارِ سیاست ہے یہاں بِکتا ہے ہر بندہ |
جو ظاہر ہو کے رہنا تھا وہ کیوں مستور ہو جاتا |
بہت اچھّا لگا وہ آگئے گو دیر سے آئے |
اگر وہ وقت پر آتے مزا بھرپُور ہو جاتا |
اگر یہ علم ہوتا ہر قدم پر دُکھ اٹھانے ہیں |
تو اس دنیا میں آنے کا نشہ کافور ہو جاتا |
معلومات