جس کا ہر سجدہ درِ یار پہ ناکام رہا
جا نماز اس کے لئے کاہے کا انعام رہا
عمر جیسی بھی کٹی پردۂ اخفا میں کٹی
اب تو واللہ یہ تماشا بھی سرِ عام رہا
جب کوئی پوچھتا ہے قِصّۂ انجامِ وفا
صاف کہہ دیتا ہوں ہر کام میں ناکام رہا
ذِمّے داری سے مزاجاً ہی بُہت دُور رہا
دن نکلتے ہی سدا منتظرِ شام رہا
زلزلے آئے مگر مجھ کو مددگار پہ واں
کوئی یزداں نظر آیا نہ کہیں رام رہا
رات کرتی ہوں بسر سیٹھ کے پہلو میں تو کیا
بچوں کو پالنا کس دَور میں الزام رہا
دل لگی اور ہے کچھ دل کی لگی اور امید
کوئی میخانے میں رہ کر بھی تہی جام رہا

1
71
بہت اچھے ۔۔۔
کوئی میخانے میں رہ کر بھی تہی جام رہا ۔۔۔۔۔یہ کمال خیال ہے

0