وہ تکلّفاً تھا جو کہہ دیا ترا مُدّعا کوئی اور ہے
مری رہ گزر کوئی اور تھی ترا راستہ کوئی اور ہے
سرِ حشر جا کے کروں گا کیا کہ مَیں خود سراپۂ حشر ہوں
مجھے حُور وُور نہیں چاہئے مرا دلربا کوئی اور ہے
قبلہ شیخ صاحب کی طنز کا مرے دوست کوئی نہ فکر کر
انہیں کیا خبر شبِ ہجر کی یہ معاملہ کوئی اور ہے
کبھی دن گزرتا ہے دُھوپ میں کبھی رات کٹتی ہے صبر میں
مرا چارہ گر کہیں کھو گیا مرا ناخدا کوئی اور ہے
چلے آؤ بہرِ خدا کبھی کہ طویل عرصہ گزر گیا
تمہیں کیا خبر مرے درد کی مری ابتلا کوئی اور ہے
کہیں خور و نوش کا قحط ہے کہیں قحطِ انساں کا تذکرہ
کبھی رات کٹ گئی بھوک میں کبھی بسترا کوئی اور ہے
یہاں شیر خوار تڑپ رہے وہاں بے کفن پڑی عورتیں
اے امید حزن و ملل نہ کر یہاں ماجرا کوئی اور ہے

0
7