یادِ ماضی ہے یا بیماری کوئی
ذہن کے کمروں میں الماری کوئی
پہروں کھوئے رہتا ہوں اسکول میں
یا کبھی کالج کی راہ داری کوئی
امتیاز و بھٹّی و افضل کے ساتھ
ساتھ ہے ہر وقت کی یاری کوئی
خوبصورت دَور کی یادیں حسیں
جیسے قابو میں ہو سرداری کوئی
ڈالروں کا عِلم نہ یورو سے پیار
کوئی جھنجھٹ تھا نہ آزاری کوئی
ہر کسی سے پیار تھا سب سے خلوص
نہ کبھی سوچی اداکاری کوئی
دوست بھی تھے یار بھی اور اقربا
ذہن میں ہر گِز نہ تھی ناری کوئی
امتیازِ رنگ و بُو واضح تھا گو
سارے یکساں شاذ ہی بھاری کوئی
اسلئے بھی دَور اچھّا تھا کہ تب
نہ نوازا تھا نہ زرداری کوئی
آؤ عارف مل کے نوشہرے چلیں
اب تو سیدھی جاتی ہے لاری کوئی

0
14