نائبِ یزداں ہوں لیکن کیا کہوں
ہو چُکا ناپید واللہ سب سکوں
ظلم و استبداد کا عالم کہ اب
فطرتِ آدم ہوئی خوار و زبوں
بیچتے ہیں لوگ اپنی بیٹیاں
پیٹ میں روٹی ہے نا جسموں میں خوں
ناچتی ہے ہر گلی کُوچے میں بھُوک
کوئی چارہ گر نہیں کس سے کہوں
کوٹھیوں میں کام کرتا ہے شباب
درسگاہوں میں لواطت کا جنوں
کم سِنوں سے بوجھ اُٹھواتے ہیں لوگ
چند سکّوں کے عوض خوار و زبوں
پاؤ بھر آٹے سے پُورا خاندان
شیر خواروں کی تمنّاؤں کا خوں
ہو گئ بوڑھی بچاری ماں کے گھر
حسرتیں دل میں سجائے سر نگوں
ادھ کھُلے دروازے سے اندر کا حال
فاقہ مستی میں گھُلا جذبِ دروں
ننگ دھڑنگ پھرتے ہیں بچّے ماؤں کے
بیڑیاں مونہہ میں لئے صیدِزبوں

0
86